وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔تعلیم کے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ وہ تقریباً دو کروڑ ساٹھ لاکھ سکول نہ جانے والے بچوں کو سکول داخل کرائیں گے اور شرح خواندگی کو بڑھائیںگے ۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی ایمرجنسی پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے معاشرے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کروڑوں بچوں کا سکول نہ جانا اور رکی ہوئی ترقی پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجز ہیں جن کے لیے بھاری مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ سابق اور موجودہ حکومت کی تعلیم سے متعلق فکر مندی کے باوجود پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے۔خطے کے ممالک اپنی شرح خواندگی کو اسی فیصد تک لے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں خواندگی کی شرح بتالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔بین الاقوامی ادارے پاکستان میں خواندگی کی گرتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔پاکستان میں متعلقہ حکام ان کی فکرمندی کے جواب میں ان سے فنڈز طلب کرتے ہیں، یہ فنڈز آتے ہیں تو بیورو کریسی نئی گاڑیاں خرید لیتی ہے۔وزیر اعظم نے جس تعلیمی ایمر جنسی کا اعلان کیا ہے اس کے لئے اندازی ہے کہ کسی عالمی ادارے نے معقول رقم کی حامی بھر لی ہے،اس بین الاقوامی مدد کو ایمرجنسی کا نام دے کر افسر شاہی نا صرف وزیر اعظم کو گمراہ کر رہی ہے بلکہ اس نے پہلے ہی تعلیمی ایمرجنسی سکیم کے لئے الگ سے لوگ جمع کر لئے ہوں گے ،اب جو فنڈز آئیں گے وہ سکولوں کی حالت بہتر بنانے، تعلیمی اداروں میں لائبریری اور لیب بنانے ،گراونڈ مہیا کرنے اور باغیچہ لگانے کی بجائے کاغذوں میں خرچ ہو جائیں گے۔جعلی داخلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں ایک بار پھر سکولوں سے کہا جائے گا اور وہ لاکھوں بچوں کا داخلہ ریکارڈ میں درج کر دیں گے۔وزیر اعظم کو بیورو کریسی کی اس واردات سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 10 سال کی عمر کے 70 فیصد بچے کسی تحریرکا متن پڑھ یا سمجھ نہیں سکتے۔ ادارے نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ضمانت کے باوجود پاکستان میں تعلیم نہ تو لازمی سمجھی گئی اور نہ ہی مفت۔پاکستان میںیونیسف کے نمائندے نے کہا کہ تعلیم اور نوجوانوں میں سرمایہ کاری میں اضافے کے ذریعے پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتا ہے اور اس ملک نے حال ہی میں چاند پر خلائی مشن بھیجا ہے۔اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ سیاسی حلقوں میں خاصہ متحرک ہیں انہوں نے بھی پاکستان میں خواندگی کی شرح کم ہونے پر رد عمل دیا ہے۔جین میریٹ کا کہنا ہے کہ 30 سال سے کم عمر کی 60 فیصد آبادی والا پاکستان مشکل دوراہے پر ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی کانفرنس نے فوری طور پر فنڈز کی فراہمی، شمولیت، ایک سے زائد شفٹوں کے سکولوں اور بچوں کا داخلہ برقرار رکھنے جیسے فوری اقدامات پر زور دیا اور پاکستان کو اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے ملک کے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے کنٹری ڈائریکٹر کوکو اوشیاما نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ خوراک کی حفاظت اور تعلیم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اسکول کا کھانا ملک کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بہترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ورلڈ بینک کے نائب صدر مارٹن رائسر نے کہا کہ پاکستان کو 40 فیصد بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ کا سامنا ہے اور غریب اضلاع میں یہ تناسب 60 فیصد کے قریب ہے۔سکولوں میں سہولیات کی کمی طلباء کی تعلیمی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ سکولوں میں کلاس رومز، فرنیچر، سیکھنے کا سامان، اور لائبریریوں کی ناکافی تعداد طلباء کے سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ سکول کے سائز اور سہولیات کا ناکافی استعمال بھی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرنے کا سبب ہے۔ سکول کی سہولیات کی حالت، بشمول عمارتوں کی عمر اور گنجائش سے زیادہ طلبا کی موجودگی، طلبہ کی کامیابی اور اساتذہ کو متاثر کرتی ہے۔ بہتر سہولیات والے سکولوں میں جانے والے طلباء غیر معیاری عمارتوں میں رہنے والوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انفراسٹرکچر میںبہتری تدریسی ماحول کو بہت بہتر بناتی ہے۔کلاس میں بچوں کی تعداد میں کمی طلباء کی اعلیٰ کامیابیوں کا باعث بنتی ہے۔ مجموعی طور پرسکول کی سہولیات کی کمی طلباء کی مؤثر طریقے سے سیکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ایک اہم معاملہ جسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا وہ سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارات کا ناکافی استعمال ہے۔لگ بھگ ہر سرکاری سکول کے ساتھ کھلا میدان موجود ہے۔چار دیواری میں موجود ہونے کی وجہ سے ان میدانوں کو سپورٹس کی محفوظ اکیڈمی بنایا جا سکتا ہے،خاص طور پر بچیاں اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔وزیر اعظم اور چاروں وزراء اعلیٰ کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ تعلیمی ایمرجنسی کا مطلب تعلیم میں پسماندگی کو دور کرنا پہلی ترجیح بنانا ہے۔پاکستان کی دو نسلیں تعلیم کے لئے دو سے ڈھائی فیصد رقم بجٹ میں رکھنے پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ہر حکومت کئی طرح کے تجربات کرتی ہے تاکہ اس کی انفرادیت تاریخ میں لکھی جائے لیکن ان سب اقدامات کا نتیجہ قوم کے سامنے مایوس کن ظاہر ہوا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی کو صرف سکول میں داخلے بڑھانے تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ تعلیم کے عمل کو شعور پیدا کرنے اور بہترین ہنر سیکھنے کے ساتھ مربوط کیا جائے گا۔