ٹیلی ویژن سکرین پر سیاستدانوں کی یاوہ گوئی ، تجزیہ کاروں کی ٹامک ٹوئیاں اور اخبارات میں چیختی چنگھاڑتی سرخیاں۔ ایوان اقتدار لرز رہا رہے تو مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ عوام کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہے۔ جو لوگ پچھلے انتخابات ہار گئے تھے اور سال انہوں نے یا تو سڑکوں پر احتجاج میں وقت گزارا تھا یا پھر اسمبلیوں میں گالم گلوچ اور ہاتھا پائی میں، اب بالفرض وہ حکومت گرا لیتے ہیں تو کون انہیں چین سے بیٹھنے دے گا؟ انتخابات ہوں تو ان کے پاس ایسا کون سا ایجنڈا ہے کہ عوام پچھلی بار مسترد شدہ لوگوں کے پیچھے چل پڑیں گے؟ کیا عوام ا قتدار کے کھیل کا حصہ ہیں بھی یا نہیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب حکومت اپنا آخری بجٹ پیش کرنے جارہی ہے تو اس وقت عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنے کا کیا فائدہ؟ بہت سارے سوالات ذہن میں کلبلا رہے تھے لیکن جواب نہ دارد۔ اگر اپوزیشن صرف موقع کی ہی تلاش میں تھی کہ حکومت کو پچھاڑ دے تو پچھلے چار سال میں کورونا کی وجہ سے آئی مہنگائی نے یہ موقع کب کا دیا ہوا تھا۔ اپوزیشن نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ البتہ اس سیاسی ناچاقی کا نقصان ملک کوضرور ہوا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثت نہایت سکون سے ختم کرڈالی اور امریکہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گیا۔ پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کی احتجاجی تحریک کا حالیہ دور اس وقت شروع ہوا ہے جب آزاد خارجہ پالیسی پر اصرار کی وجہ سے امریکہ اور مغربی ممالک حکومت سے ناراض تھے۔ سیاسی انتشار پیدا کرنا ، حکومتیں گرانا، ملکوں پر حملے کرکے وہاں پر کٹھ پتلی حکمران بٹھانا ، یہ بہت پرانا حربہ ہے انکا۔ اپوزیشن کا ایسے موقع پر تحریک شروع کرنے کا مطلب تو پھر یہی ہوا ناکہ بندوق چلانا چاہیں تو کندھے حاضرہیں!!۔ بات اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے پر آئی ہے تو ہارس ٹریڈنگ بھی زور پر ہے۔ دوسری طرف حکومت کی اپنی صفوں میں انتشار ہے اور وہ اپنے منحرف ارکان کو مختلف حربوں اور طریقوں سے مخالف کیمپ میں جانے سے روکنے کے لئے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے موقع پر تحریک انصاف کا ڈی چوک پرجلسہ اور اپوزیشن کی اپنے حامیوں کو اسلام آباد آنے کی دعوت، سندھ ہاوس میں پناہ لیے ہوئے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی پر پارٹی کارکنان کا دھاوا اور سندھ میں گورنر راج نافذ کرنے کی باتیں۔ سیاسی ماحول جتنا گرم ہے ، تصادم ہوسکتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو معاملات آئینی بحران کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ انتخابات ہونگے اور پرنالہ واپس وہیں پر جہاں پہلے تھا۔ آخر یہ سب کس لیے؟ اس اقتدار کے لیے جس میں وزیر اعظم مجبور محض ہوتا ہے؟ اپوزیشن کے ایک دھڑے، پاکستان جمہوری تحریک، کی کوشش رہی ہے کہ حکومت کسی نہ کسی طریقے سے مستعفی ہو، اسمبلیاں ٹوٹ جائیں اور نئے انتخابات کا اعلان ہو۔ پاکستان پپپلز پارٹی، چاہتی ہے کہ حکومت تبدیل ہو لیکن انتخابات قبل از وقت نہ ہوں تاکہ یہ سندھ میں اقتدار کے مزے لیتی رہے۔ پہلے بھی اس نے پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالی تھی، شاید اب بھی اس کے قبل از وقت انتخابات کے بابت جوش و خروش کو کم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھائے۔ اگر فی الحال مرکز میں یہ حکومت بنانے کی سکت نہیں رکھتی تو یہ ضرور چاہتی ہے کہ سیاست لاڑکانہ کے گرد گھومتی رہے۔ یوں اپوزیشن نہ تو اپنے اغراض و مقاصد پر متفق ہے نہ حکمت عملی پر۔ سیاسی سیاسی ناچاقی کی وجہ سے کرونااور معاشی بحران کی موجودگی میں آئین سازی کے عمل میں تعطل ہوا جس کی وجہ سے وہ تدابیر اور اقدامات نہ اٹھائے جاسکے جو انہیں مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے لازم تھے۔ حکومت نے تن تنہا، آرڈیننسوں کی مدد سے ملک کو درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما رہی۔ اگر سیاسی پارٹیاں اس بحرانی کیفیت میں یکجہتی کا مظاہرہ کرتیں تو صورتحال مختلف ہوتی۔ کرونا کے بعد آئی مہنگائی کو صوبائی حکومتیں یکسوئی کے ساتھ نمٹتیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور نا جائز منافع خوروں کے خلاف بھر پور کاروائی ہوتی تو شاید مہنگائی کا عفریت بے قابو نہ ہوتا۔ گونا گوں مسائل کا حل یہ بھی تھا کہ مقامی حکومتیں فعال کی جاتیں۔ آئین کی روح کیمطابق انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات عوام تک پہنچ رہے ہوتے تو موجودہ سیاسی بحران کے اثرات محدود ہوتے۔ اب خدا خدا کرکے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں کا تعین ہوا ہے تو سیاسی ناچاقی نے آن لیا ہے۔ وبا اورمخدوش بین الاقوامی صورتحال میں سیاسی محاذ پر کشیدگی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حیران کن حد تک اس ضرورت کا احساس سیاسی پارٹیوں میں نظر نہیں آرہا۔ تختہ یا تختہ کی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صلح جوئی کی بجائے بد تمیزی، گالیاں اور الزام تراشی کا رویہ ہے۔ تضادات کو ختم کرنے کی بجائے انہیں بڑھا وا دیا جارہا ہے۔ایندھن کو خشک کیا جارہا ہے کہ تیلی لگے اور سب ختم۔ کچھ تجزیہ کار سمجھ رہے ہیں کہ ملک انیس سو نوے کی دہائی میں واپس پہنچ گیا ہے۔ یہ خوش فہمی ہے۔ ملک انیس سو پچاس کی دہائی میں ہے۔ہمیں مشرق کی طرف دیکھنا ہے یا مغرب کی طرف، یہ سوال پھر سے آن موجود ہوا ہے۔ کیا اس بار ہما را جواب مختلف ہوگا؟ پہلے بھی اس سوال نے ہمارے اندر دراڑ ڈالی تھی، اب بھی وہی صورتحال ہے۔ مجھے لگا کہ میں کنفیوز ہوگیا ہوں۔ میں نے فون اٹھایا ، دوسری طرف پشاور سے ڈاکٹر خالد مفتی لائن پر تھے اور کہہ رہے تھے کہ بدانتظامی، بد امنی ، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے ذہنی انتشار ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ذہنی انتشار لوگوں کی قوت فیصلہ کو مفلوج کردیتا ہے اور وہ خود کو درپیش مسائل کا نہ صرف حل نہیں ڈھونڈھ پاتے بلکہ ان میں اضافے کا موجب بنتے ہیں۔ یوں خرابی بڑھتی جاتی ہے اور معاملہ سنگین جرائم کے ارتکاب یا پھر خود کشی تک پہنچ جاتا ہے۔ یوں حالات کیسدھارنے کی طرف پہلا قدم ذہنی انتشار پر قابو پانا ہے جسکا طبی حل تو موجود ہے لیکن لوگ اس طرف نہیں جاتے کیونکہ وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ذہنی انتشار ایک خطرنا ک بیماری ہے اور یہ کہ وہ بھی اسکا شکار ہوسکتے ہیں۔