جیل بھرو تحریک کیا ہوتی ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ دوسرے کیا جیل بھرو تحریک کامیاب ہوسکے گی؟ جیل بھرو تحریک کا بنیادی مقصد اپنے مطالبات منوانے کا ایک طریقہ ہے‘ بنیادی طور پر جیل بھرو تحریک ایک قسم کی سول نافرمانی کی تحریک ہوتی ہے‘جس کے ذریعے حکومت سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے‘دنیا میں اپنے مطالبات اور حقوق کو تسلیم کروانے کیلئے ماضی میں کئی جیل بھرو تحریکیں چلتی رہی ہیں‘1920ء میں برطانیہ کی خواتین نے ووٹ کا حق حاصل کرنے کیلئے سفر ا جیٹس تحریک چلائی جس کے تحت خواتین قانون شکنی کرتیں اور جرمانے بھرنے سے انکار کرنے پر جیل چلی جاتی‘یہ تحریک مستقل مزاجی سے چلتی رہی اور آخر کار 1928ء میں خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا‘ امریکہ میں 1950ء سے 1960ء کی دہائی میں سول رائٹس موومنٹ کے دوران نسلی بنیادوں پر تفریق ختم کرنے کیلئے ایسی تحریک چلی‘ سیاہ فام لوگ قانون شکنی کرتے اور جان بوجھ کر جیل چلے جاتے‘ پھر 1963ء میں 1000سے زائد سیاہ فام بچے سکول چھو ڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے‘ ان مظاہرین نے پولیس کی لاٹھیاں کھائیں‘ان پر کتے چھوڑے گئے یہ امریکی تحریک دنیا میں اس لئے منفرد بن گئی کہ روزانہ تشدد کے باوجود سیاہ فام امریکی بچوں نے احتجاج جاری رکھا‘گرفتاریاں دیتے رہے‘ جس سے پوری دنیا میں غم و غصہ بڑھا‘اس تحریک کو چلڈرنز کروسٹڈ کے نام سے جاتا ہے‘ یہ احتجاج اتنا پھیل گیا کہ امریکی صدر جون ایف کینڈی بھی وفاقی سول رائٹس قانون کی حمایت میں کھڑے ہوگئے‘آخر کار 1964ء میں اس قانون کو منظور کیا گیا اور امریکہ میں نسلی علیحدگی کا خاتمہ ہوا‘ جنوبی افریقہ میں 1952ء میں نسلی عصبیت کیخلاف دا ڈیفائنس کیمپین شروع ہوئی‘کارکن قانون توڑتے جیل چلے جاتے جس سے حکومت بوکھلا گئیں‘یہ وہی تحریک ہے جس میں نسل پرستی کیخلاف مہم کی علامت بننے والے نیلسن منڈیلا ابھرے اور جیل جانا ان کیلئے نشان امتیاز بن گیا‘ برصغیر میں برطانوی راج کیخلاف سول نافرمانی کی تحریکیں بار بار پڑھنے کو ملتی ہے‘ مہاتما گاندھی 49 سال سے 75 سال کی عمر تک 11بار جیل گئے۔پاکستان میں جیل بھرو تحریک 1977ء میں پی این اے کی تحریک کی صورت میں نظر آئی‘محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں کبھی ن لیگ اور کبھی نواز شریف کے دور میں پیپلز پارٹی ایسی تحریکوں کے نعروں کے ساتھ سامنے آئیں‘پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کرنے پر پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتو ں نے اس کااعلان کیا لیکن وطن عزیز پاکستان میں سہی معنوں میں 1981ء اور 1986ء میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق مرحوم کیخلاف ایم آر ڈی کی جانب سے جیل بھرو تحریک سامنے آئی جب بڑی تعداد میں کارکنوں اور رہنماؤں نے گرفتاریاں دیں لیکن ڈکٹیٹر ضیاء الحق نہ صرف اپنے عہدے پر فائز رہے بلکہ وہ اس تحریک میں شامل سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے، اب پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کردیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ جماعت احتجاج زیادہ موثر طریقے سے کرتی ہے‘دھرنوں اور احتجاجی تحریک چلانے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔ پی ٹی آئی کے مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عمران خان کی اگر سیاسی مقبولیت ختم کرنی ہے تو اس کا علاج صرف اور صرف عمران خان کا ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنا ہے۔ جیل بھرو تحریک کے سلسلہ میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت میں سے شاہ محمود قریشی‘اسد عمر‘ اعظم سواتی‘ عمر سرفراز چیمہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں‘پشاور میں تحریک انصاف کے کارکن جتنی بڑی تعداد میں قیادت کیساتھ نکلے‘یہ سوال یہاں ضرور جنم لے رہا ہے کہ پاکستان جیسا معاشرہ جہاں فوجی آمروں‘طالع آزماؤں اور جمہوریت کے لبادے میں سیاسی جماعتوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے بڑی بڑی قد آور شخصیات نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ہر طرح کی قربانیاں دیتے رہے وہاں بار بار عوام کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ قوم صرف جلسوں میں‘جلوسوں میں واہ واہ کرتی ہے اور کبھی بھی قربانی کیلئے کسی تحریک میں عملی طور پر نہیں نکلتی‘ اس تناظر میں تحریک انصاف تاحال اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنے میں تو کامیاب نظر آتی ہے لیکن جیل بھرو تحریک کا مقصد جیل میں جانا ہوگا‘اس ضمن میں کتنے لوگ گرفتاریاں دیتے ہیں‘ کتنی عوام گرفتار ہوتی ہے‘حکومت اس تحریک کو کچلنے کیلئے ریاستی ہتھکنڈے لازمی طور پر اپنائے گی‘اس وقت کتنے کارکن اور عوام کی کتنی تعداد اپنا کردار مستقل مزاجی سے ادا کرتی رہے گی‘یہ سوال اہمیت کے حامل ہونگے‘بدقسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قیام پاکستان کے ایک سال بعد دیہاتوں کے دوروں کے بعد شدید رنجیدہ ہوئے تھے اور انہو ں نے عوام کی بھوک اور محرومی پر کئی سوالات اٹھا دئیے تھے‘ آج پاکستان کو قائم ہوئے 75سال بیت چکے ہیں‘حکمران اشرافیہ اور اس کی پروردہ اشرافیہ نے عوام سے اس کے حقوق مسلسل چھین رکھے ہیں‘ اوپر سے 1977ء کے بعد ظلم یہ ہوا کہ مرد مومن مرد قلندر جنرل ضیاء الحق سرمایہ داروں کو غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اس قوم پر مسلط کرگئے‘وڈیروں‘جاگیرداروں کے شانہ بشانہ سرمایہ دار قانون ساز اداروں میں داخل ہوگئے اور انہوں نے اپنی خوشحالی کو اول و آخر فریضہ سمجھتے ہوئے اسے قانون کی شکل دیدی‘تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اس دوران 2018ء کے عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آئے‘گو ان کے ساتھ بھی اشرافیہ کی ایک فوج ظفر موج موجود تھی لیکن انہو ں نے انصاف کا نعرہ لگایا‘تاہم ان کے اقتدار کے دوران بھی ملک میں وہ تبدیلی نہیں آسکی جس پر وہ ن لیگ‘پیپلز پارٹی و دیگر کو کوستے رہے‘اب 9اپریل 2022ء کے بعد جب ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا‘عوام ایک مرتبہ پھر ان کے شانہ بشانہ ہے‘اس کے بعد کی ساری داستان حالیہ تاریخ ہے‘لہذا عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے‘یہ تحریک عمران خان اور پاکستان دونوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکتی ہے‘اگر مقصد صرف اقتدار کا حصول نہ ہو تو وگرنہ پورا سسٹم اس وقت عمران خان کے خلاف ہے‘ بہرحال جیل بھرو تحریک عمران خان کا کھیلا گیا ترپ کا آخری پتہ نہیں !