پاکستان کی سیاست اور عدالت کے معاملات پر بھارت کے جسٹس مارکنڈے بہت تکلیف میں ہیں۔پاکستان میں کچھ بھی ہوتا ہے مارکنڈے صاحب دل کو تھام لیتے ہیں، ان کے دل میں در د ہونے لگتا ہے ، ان کے جگر سے ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں، ان کا دل ڈوبنے لگتا ہے وہ دہائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد سے مارکنڈے تک ، یہ بزرگان کرام اپنے اپنے ملک سے بے نیاز ہو کر اچانک پاکستان کے داخلی معاملات پر مجنوں بنے پھرتے ہیں۔ پاکستان کے ان نومولود خیر خواہوں کی بے تابی دیکھ کر میر یاد آتے ہیں: آباد اجڑا لکھنوچغدوں سے اب ہوا۔ کبھی یہ پاکستان کے آئین کو مذاق قرار دیتے ہیں ، کبھی یہ عوام کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کے افسران کے گھروں ار دفاتر کے باہر دھرنا دے کر الیکشن کروانے پر مجبور کریں یا پھر خودکو مرد نہ کہلائیں۔کبھی یہ زمان پارک جانے والے تحریک انصاف کے کارکنان کو بے وقوف قرار دیتے ہیں ، کبھی یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مریم نواز اور نواز شریف کو عمر قید ہونی چاہیے ،کبھی یہ سپریم کورٹ پر سیاست کا الزام لگا دیتے ہیں ، کبھی یہ سلامتی کے اداروں کی تضحیک شروع کر دیتے ہیں ، کبھی فرماتے ہیں بہت جلد میں پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کو ایک ملک بنا دوں گا۔ بھارت میں اگر دماغی امراض کا کوئی اچھا ہسپتال یا طبیب نہیں ہے توپھر یہ انسانی بنیادوں پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سرکاری خرچے پر ان کے پاکستان میں نفسیاتی علاج کے لیے پیش کش کرے۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں بہت سے مسائل ہو سکتے ہیں لیکن جب داخلی معاملات کو امور خارجہ میں بازیچہ اطفال بنایا جاتا ہے تو پھر سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر اس کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔پاکستان کے داخلی معاملات میں خطے کے بزرگان خود معاملہ کی اچانک بڑھتی ہوئی دل چسپی قابل غور ہے اور یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ کہ بزرگ ریٹائر ہیں اور ان کے پا س وقت بہت ہے اس لیے وہ خطے کے معاملات پر رہنمائی فرمانا ضروری خیال کرتے ہوں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ پاکستان کے معاملات پر اکثر گرہ لگاتے رہتے ہوں۔ یہ نومولود محبت جو ان کے اندر پاکستان کے معاملات پر جاگی ہے اسکی شان نزول وہ خود ہی بیان کر چکے ہیں ۔ یہ بھارتی سامراج کی وہی سوچ ہے جس کے علمبردار ایک زمانے میں سردار پٹیل ہوا کرتے تھے۔ ان کی واردات سیاسی تھی۔ جسٹس صاحب کے اکھنڈ بھارت کی صورت فکری ہے اور یہی ان کے ابلاغی تحرک کا مرکزی نکتہ ہے۔ پاکستاان کے وجود کی نفی کرنے کا ان کا یہ موقف اور پاکستان کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کی ان کی یہ خواہش بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر موجود ہے۔ یعنی یہ ان پر کوئی الزام نہیں ، یہ ایک حقیقت ہے جس کا اظہار کرنے میں انہوں نے کبھی کوئی تامل نہیں کیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک آدمی جو پاکستان کے وجود ہی کا منکر ہے، جو اسے شرپسندی سمجھتا ہے وہ پاکستان کے مسائل پر رواں تبصرے کرتا ہے تو یہ خیر خواہی ہے یا اکھنڈ بھارت کی ابلاغی جارحیت؟ جسٹس مارکنڈے کے دل میں حقوق انسانی اور جمہوری قدروں کا جو درد جاگا ہے یہ کبھی کشمیر کے معاملے میں کیوں نہیں جاگتا۔ نوے سال کے بزرگ سید علی گیلانی کے جسد خاکی کو جس توہین آمیز طریقے سے ان کے اہل خانہ سے چھین کر دفن کیا گیا اس دن وہ کوئی ایسا ٹویٹ کیوں نہ کر سکے کہ دلی میں لوگوں کو اس بر بریت پر احتجاج کے لیے گھروں سے نکلنا چاہیے یا پھر خود کو مرد نہ کہلائیں۔ جنوبی ایشیاء کے اس مرد بزرگ کی مردانگی کہاں اشنان فرمانے چلی جاتی ہے جب ہندو شائونزم کو مودی سرکار سٹریٹجائز کرنے لگتی ہے۔ برائے وزن بیت تنقید کرنا اور بات ہے اور ریاستی شائونزم کی واردات پر جوہری تنقید دوسری چیز ہوتی ہے۔ عالی مرتبت پاکستان کے خاتمے کی بات تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست تھا مگر اب بد ترین ہندو ریاست بن چکا۔ اس لیے اسے ختم ہو جانا چاہیے۔ پاکستانی آئین کو تو جسٹس صاحب مذاق قرار دیتے ہیں لیکن بھارت کے آئین میں کشمیر اور سکھوں کے ساتھ جو واردات کی گئی ہے اس پر ان کا مزاج نازک کبھی برہم نہیں ہوتا ۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ سکھ کوئی الگ مذہب نہیں بلکہ یہ ہندو ہی ہیں۔ مارکنڈے صاحب کے خیال میں یہ مذاق نہیں بلکہ یہ مہا بھارتا کی شرح لکھی جا رہی ہے جہاں حاشیہ متن سے آگے نکلا ہوا ہے۔بھارت دنیا کا واحد دندناتا ہوا سیکولرزم ہے جہاں بھارت کی پہلی دستور سازاسمبلی نے کھڑے کھڑے تین مذاہب کی شناخت کا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور آئین میں لکھ دیا کہ بدھ مت ، سکھ اور جین مت الگ سے کوئی مذہب نہیں ۔ سردار حکم سنگھ اور سردار بھو پندر سنگھ مان احتجاج ہی کرتے رہ گئے لیکن بھارت کے بانیان کرام نے ان کی ایک نہ سنی ۔تین مذاہب کو ہندتوالینے کی اس واردات پر جسٹس مارکنڈے صاحب گنگا کے پانیوں کی طرح شانت ہیں۔ کشمیر میں ’ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ ‘ پوٹا ، ٹاڈا جیسے کتنے ہی غیر انسانی قوانین آئے جسٹس صاحب نے کسی قانون سا ز کو احمق قرار نہیں دیا۔کسی کو عمر قید دینے کی بات نہیں کی۔ یہ بات درست ہے کہ وہ بھارت میں اپنی حکومتوں پر بھی سخت تنقید کرتے رہتے ہیں اور بے باک تبصرے ان کی شناخت بن چکے ہیں لیکن ایسا مورچہ انہوں نے بھارت میں کبھی نہیں لگایا جیسے پاکستان کے معاملات پر لگا رکھا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں ان کا موقف بالکل الگ ہے۔ وہ پاکستان کے قیام کو شرپسندی قرار دیتے ہیں اور ان کے انٹرویوز آج بھی دستیاب ہیں جن میں وہ برملا اقرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ پاکستان کے وجود کی نفی کرتے ہوئے اسے دوبارہ بھارت میں ضم کرنے کے مشن پر ہیں۔ یہ مشن اگر چہ احمقانہ ہے ا ور اس سے صرف یہ ظاہر ہوتاہے کہ بڑھتی عمر نے ان کی دماغی صلاحیتوں کو بڑی حد تک متاثر کر دیا ہے لیکن اس سے اس واردات کی سنگینی کم نہیں ہوتی جو موصوف کیے جا رہے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ایسا شخص آئے روز پاکستان کے معاملات پر تبصرہ کرتا ہے توو ہمارے اہل سیاست ہاتھ باندھ کر حماقت کی اس بارگاہ میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ ان کا جو بیان جب اور جہاں کسی سیاسی جماعت کے مفاد سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے وہ اس کا ابلاغ شروع کر دیتا ہے۔انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ بیان کہاں سے آرہا ہے ، کیوں آ رہا ہے ، اس کی شان نزوول کیا ہے ، وہ بس یہ دیکتے ہیں کہ وقتی طور پر ان کا فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ غیر سنجیدگی اور احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ غیر ملکی میگزین میں سرورق پر کسی رہنما کی تصویر شائع ہو جائے تو متن پڑھے بغیر اسے ’ فتح عظیم ‘ تصور کر لیا جاتاہے۔ ہے کوئی ہم سا؟