آج سے سات سال پہلے جب میں امرتسر کے ہال بازار میں واقع مسجد خیرالدین کے دروازے پر موجود اپنے دادا اور دادی کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے بعد جلیانوالہ باغ کی سمت روانہ ہوا تو میرے کانوں میں اپنے والد کی بتائی گئی‘ اس تفصیل کا ایک ایک فقرہ ٹکرانے لگا۔ایک گیارہ سال کے اس یتیم بچے نے 13اپریل 1919ء کے امرتسر میں جس فضا کو محسوس کیا تھا وہ ان کی یادداشتوں میں محفوظ تھا۔مسجد خیرالدین اور جلیانوالہ باغ کا فاصلہ صرف ڈیڑھ کلو میٹر ہے۔ان دونوں کے درمیان چوک فرید آتا ہے جہاں میرے والد اپنی بیوہ ماں اور دو بھائیوں کے ساتھ رہتے تھے۔اس راستے سے گزرتے ہوئے میں چشم تصور میں سو سال پرانا خاموش اور پرسکون امرتسر لا رہا تھا‘ جہاں بیساکھی کے میلے میں لوگ اردگرد کے دیہات سے آئے ہوئے ہیں‘ لائوڈ سپیکروں کا شور ہے نہ گاڑیوں کے ہارنوں کی آوازیں۔سب لوگ اپنی اپنی دھن میں مگن میلے ٹھیلے کے ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ باغ کے ساتھ گولڈن ٹمپل کی یاترا اور باغ میں لگے ہوئے کھانے پینے کے سٹالوں پر رونق ہے اور تماشہ دکھانے والے اپنے ہنر دکھا رہے ہیں۔اس سب کو اپنے چشم تصور میں لاتا ہوا جب میں باغ کے واحد چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہوا تو مجھے انگریز ڈپٹی کمشنر اور فوجی کرنل کی سفاکیت کا اندازہ ہوا۔باغ کے چاروں جانب اونچے اونچے مکانات تھے جن کی پشت باغ کی سمت تھی‘ یعنی کوئی دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔اب اس ذہنیت اور ٹریننگ کا جائزہ لیجیے جو اس سانحہ میں بروئے کار نظر آتی ہے۔صبح نو بجے یہ اعلان کیا گیا کہ رات دس بجے سے امرتسر میں کرفیو نافذ ہو جائے گا۔مقصد یہ تھا کہ لوگ رات تک آرام سے گھوم پھر سکیں۔دو اہم رہنما ستیہ پال اور سیف الدین کچلو کو گرفتار کر کے امرتسر بدر کیا گیا تاکہ لوگوں میں غصہ پیدا ہو اور ساتھ ہی دفعہ 144کے تحت چار سے زیادہ لوگوں کے ایک ساتھ اکٹھا ہونے پر پابندی بھی لگا دی گئی۔ سیاسی کارکنوں نے بیساکھی کے میلے پر جمع ہونے والی مخلوق سے فائدہ اٹھانے کے لئے باغ میں چھوٹا سا سٹیج لگا کر تقریریں شروع کر دیں۔ڈپٹی کمشنر اور فوجی کمانڈر ڈائر نے وہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع ہونے کا وقت دیا۔ایک اندازے کے مطابق جب وہاں پندرہ ہزار لوگ جمع ہو گئے تو ڈائر اپنے ساتھ گورکھا رائفلز اور 59سندھ رائفلز کے پچاس جوانوں کو لے کر وہاں پہنچا‘ جن میں 25گورکھے سپاہی اور باقی پٹھان اور بلوچ تھے۔خاص طور پر کسی پنجابی کوان میں شامل نہ کیا گیا تاکہ انگریز سے وفاداری کے وقت اپنی ہم زبان قوم کا خیال نہ آ جائے۔باغ کی جانب کھلنے والی پانچ چھوٹی چھوٹی گلیاں تھیں جن میں آہنی دروازے تھے ان کو بند کر دیا گیا اور واحد دروازے پر مشین گنوں سے لیس سپاہیوں کو قطار در قطار کھڑا کرنے کے بعد ڈائر نے اطمینان سے ہجوم کے اس حصے کو دیکھا‘ جہاں سب سے زیادہ لوگ موجود تھے اور پھر وہاں پر نشانہ لے کر فائر کرنے کا حکم دیا۔بندوقوں نے شعلے اگلے‘ لوگوں کے جسموں سے گولیاں آر پار ہوئیں۔ لوگ بھاگ کر بند دروازوں کی طرف گئے مگر راستہ نہ پا کر کئی ایک نے جان بچانے کے لئے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔باغ کے درمیان کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ والد بتایا کرتے تھے کہ جب فوج کے سپاہی بھاگ کر دروازے کی جانب بڑھ رہے تھے تو میں باہر نکل رہا تھا۔کسی کو بھی انہیں دیکھ کر بالکل خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔لیکن ابھی میں گھر نہیں پہنچا تھا کہ پورا امرتسر گولیوں کی تراخ پڑاخ سے گونج اٹھا۔1650گولیاں فائر کی گئیں اور 379لوگ مارے گئے۔اس کے بعد جو خوف کی فضا پیدا ہوئی‘ اس دوران پورے پنجاب میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور سرعام کوڑے مارنے کا قانون منظور کر کے سزائیں دی جانے لگیں ،واقعہ کے بعد وہی ہوا جو ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی آج بھی ویسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔ہندوستان کی حکومت نے واقعہ کی تحقیق اور تفتیش کے لئے ایک کمیشن قائم کر دیا۔جسے ہنٹر کمیشن کہا جاتا ہے۔خوفناک چالبازی کے ساتھ حکومت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔کچھ ایسے تھے جو اسے سفاکیت اور درندگی کہتے تھے‘ جن میں چر چل بھی شامل تھا‘ جبکہ بے شمار ایسے تھے جو اسے حکومت کی رٹ اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈائر کو فوج کی ملازمت سے برطرف کر دیا جائے لیکن اس کے برعکس برطانوی پارلیمنٹ کے دارالامراء نے اس کے حق میں ایک قرار داد منظور کی اور اس کو ایک تلوار پیش کی گئی جس پر لکھا تھا ’’پنجاب کو بچانے والا (Saviovr of punjab)۔چرچل نے دارالعوام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے اپنے مظالم کو چھپانے کے لئے دارالامراء میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے یہ قرار داد منظور کروائی ہے۔ڈائر نے تلوار وصول کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے فائرنگ ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے نہیں کی تھی بلکہ ہندوستانیوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دینے کے لئے کی تھی‘‘۔ ایسے فقرے آج بھی آپ کو گونجتے سنائی دیں گے۔ اس کے بعد سے جو فضا او جو خوفناک ماحول اس ہندوستان میں پیدا ہوا اور جسے نام نہاد سیاسی قیادت‘ سول ایڈمنسٹریشن اور مددگار فوجی جنتا کے گٹھ جوڑ سے ’’حکمت عملی‘‘ ترتیب دی گئی اسے آج تک قائم رکھا گیا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں جدید آلات تشدد اور مہلک ہتھیاروں کی اقسام میں اضافہ ہوا ہے عوام میں ریاست نے اپنے خوف کو ایسے کئی جلیانوالہ باغ جیسے واقعات اور آپریشن کر کے مزید گہرا کیا۔جامعہ حفصہ اور ماڈ ل ٹائون سانحہ اسی تسلسل کا خوف اظہار ہے جلیانوالہ باغ کے گیارہ سال بعد ویسا ہی پرتشدد سانحہ 23اپریل 1930ء کو قصہ خوانی بازار میں پیش آیا۔اس دفعہ تو سزا دینے کے لئے مزید خوفناک طاقت کا استعمال کیا گیا۔بکتر بند گاڑی تیز رفتاری کے ساتھ ہجوم کو کچلتی ہوئی آگے بڑھی اور بیچ کھڑے ہو کر چاروں جانب مشین گنوں سے نہتے لوگوں پر فائر کھول دیا گیا۔اس دفعہ کمیشن تو بنا لیکن ریاست کے ظلم کی پردہ پوشی کے لئے ایک اور کردار وجود میں آ گیا۔بادشاہ جارج ششم نے ’’جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور لکھنؤ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نعمت اللہ چوہدری کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا۔اس اعلان کیساتھ ہی جج صاحب کی برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزاز KnightHoodسے بھی نواز دیا گیا۔جج صاحب نے اس قتل پر 200صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں برطانوی فوج کے مظالم کا خوب تذکرہ کیا گیا۔یہ رپورٹ مشرقی پاکستان کے سانحہ پر بننے والے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح سرد خانے میں ڈال دی گئی۔وجہ صرف ایک بیان کی گئی کہ اس طرح عوام کے سامنے فوج کا مورال تباہ ہو گا اور حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی۔ گزشتہ ایک سو سال سے ایسی ہی کیفیت ہے جو قائم ہے۔محکوم عوام اور حاکم اسٹیبلشمنٹ۔اس سو سال کے عرصہ میں ہم نے اپنی تباہی کے لئے دو رویے مستحکم کئے ہیں۔ پہلا یہ اصول کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے‘انصاف کی حکمرانی نہیں۔یعنی جیسا ظالمانہ قانون بنا دو اس پر عملدرآمد ضروری ہے۔دوسرا یہ کہ حکومت کی حاکمیت یعنی حکومت کی’’رٹ‘‘ ہونی چاہیے۔عوام کی حاکمیت نہیں۔ اگر عوام کی مرضی حکومت کی رٹ سے ٹکرائے تو کچل کر رکھ دو ،چاہے آپ کو ایک اور جلیانوالہ والا باغ یا سانحہ ماڈل ٹائون برپا نہ کرنا پڑ جائے۔