اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور عالمی رہنماوں کا خطاب سنا اور ان نکات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جو پوری دنیا کے لئے اتفاق کا موجب بن سکتے ہوں۔ترقی یافتہ ممالک نے گلوبل ڈویلپمنٹ ایجنڈے کی بات کی۔محروم اور افلاس زدہ ممالک کے نمائندوں نے اپنی بھوک کا ذمہ دار بڑے ملکوں کو قرار دیا۔جن علاقوں میں مقامی آبادی حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کر رہی ہے ان کے لئے آواز اٹھائی گئی۔ عمومی طور پر رکن ممالک کے سربراہ یا ان کے نامزد نمائندے اس اجلاس میں گلوبل ایجنڈے سے اپنے ملک کے تعلق پر بات کرتے ہیں۔ عالمی ادارے کے طریقہ کار اور اقدامات پر چونکہ بڑی طاقتوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے اس لئے اقوام متحدہ کاادارہ عالمی اشرافیہ کا درجہ رکھنے والے ممالک کے مفادات کے تابع بن کر رہ گیا ہے۔ غریب ‘ افلاس زدہ اور کمزور ممالک نچلے طبقات کی طرح عالمی پالیسیوں میں امتیازی سلوک کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں قیام امن کو یقینی بنانے اور عالمی معاملات میں تمام رکن ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے اقوام متحدہ کا ایک چارٹر ترتیب دیا گیا۔ یہ منشور بین الاقوامی مساوات کا علمبردار ہے۔ اقوام متحدہ نے سماجی‘ معاشی سیاسی اور دفاعی امور کے لئے کئی ذیلی ادارے بنائے۔ عالمی عدالت انصاف قائم کی۔ ان اداروں کو سو فیصد آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جاتا تو آج اقوام متحدہ کے ناکام ہونے‘ اصلاحات کے مسلسل مطالبات اور اس کے وجود پر سوالات نہ اٹھتے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ہر سال کیوبا‘ وینزویلا ‘ ایران وغیرہ کے سربراہ جو کہتے آ رہے ہیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی۔ ترکیہ‘ ملائشیا اور پاکستان فلسطین کے ساتھ کشمیر کے تنازع کے حل نہ ہونے کی یاد دہانی کراتے ہیں لیکن اس کے باوجود طاقتور ممالک کی جارحیت کے شکار چھوٹے ممالک کی مدد کو کوئی بڑا ملک آگے نہیں بڑھتا۔ مساوات اور انسانی احترام و آزادی کے تصورات کچلے جا رہے ہیں۔ گھر ہو ‘ ملک ہو یا اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ اس کی ذمہ داری مستعد‘ باوسیلہ اور طاقتور طبقات پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ کسی ملک کے خلاف جنگی کارروائی ،امن دستے بھیجنے‘ استصواب رائے کرانے یا تجارتی‘ دفاعی و معاشی پابندیاں لگانے کا فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ فرانس اور روس اس کے ایسے پانچ مستقل اراکین ہیں جو ویٹو کا اختیار رکھتے ہیں۔ ویٹو کی طاقت نے جہاں کسی ایک طاقتور ملک کو من مانی کرنے سے روکا ہے وہاں باقی 190کے قریب رکن ممالک کو ان مستقل پانچ اراکین کا محتاج بنا رکھا ہے۔ دنیا کئی طرح کے خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے۔ ویٹو ممالک، جی 8اور جی 20ممالک اگر صحت‘ ماحولیاتی تغیر اور صاف توانائی جیسے معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں‘ دنیا بھر میں موثر پروگرام پر عملدرآمد کرائیں تو کرہ ارض آنے والے خطرات سے بچ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلق یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ ادارہ چند طاقتور ملکوں کے مفادات کا محافظ بن کر رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ عالمی تنازعات کے باب میں اپنا کردار روز بروز کھوتا چلا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران یوکرین روس جنگ نے خوراک اور توانائی کی سکیورٹی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ روس نے یورپی ممالک کو گندم اور گیس کی فراہمی روکی۔ جنگ کی وجہ سے یوکرین اپنی فاضل گندم عالمی مارکیٹ میں پوری طرح نہیں لا پا رہا‘ اس سے بین الاقوامی سطح پر توانائی و خوراک کا بحران پیدا ہوا ہے۔ اس بحران کی رو میں وہ ممالک بھی بہہ چکے ہیں جن کا یوکرین جنگ کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پذیر ممالک کا دکھ اس لحاظ سے سوا ہے کہ وہ خوراک و توانائی کے لئے دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں۔یہ بحران جب عالمی اداروں کے قابو میں نہ آسکا تو اس نے اپنا دائرہ پھیلا لیا۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کی وافر پیداوار سمگل ہو رہی ہے اور پیداوار کی قلت ہونے سے اس کے نرخ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ کوئی موثر کردار ادا کر کے یوکرین جنگ کو بند کرانے کی کوشش کرے گا لیکن یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس لڑائی کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش ہی شروع نہیں ہو سکی۔ علاقائی سالمیت اور کثیرالجہتی کا احترام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر پر مبنی بین الاقوامی نظم کے لیے پاکستان کا عزم ہمیشہ واضح رہا ہے۔پاکستان کا موقف رہا ہے کہ تسلیم شدہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ریاستوںکو دوسروں کی سالمیت کے لئے خطرات پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔یہ موقف تنازع کشمیر کے تناظر میں بھارت پاکستان تعلقات کا رخ متعین کرتا ہے۔اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے کا امن کس کی وجہ سے داو پر لگ چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں دنیا نے ایک نئے خطرے کا سامنا کیا ہے۔ مسلم خاندان نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ترقی یافتی و مہذب کہلائے جانے والے کئی مغربی ممالک میں قرآن پاک کو جلایا جا رہا ہے،حیرت یہ کہ اس سارے عمل کو آزادی اظہار کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔اس نوع کے واقعات نے عالمی بھائی چارے کی فضا مکدر کی ہے۔ہمسائیہ ملک بھارت میں اسلامو فوبیا کی ایک شکل مسلمانوں پر تشدد اور ان کے معاشی مواقع ختم کرنے کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کا بڑھتا ہوا رجحان دنیا کی مداخلت چاہتا ہے۔ میرے لئے یہ امر باعث تعجب ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران پاکستان نے ماحولیاتی آفات کا جس بڑے پیمانے پر سامنا کیا ہے جنرل اسمبلی میں اس پر کماحقہ بات نہیں ہو سکی ۔موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور اس کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں پاکستان سمیت سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی مدد کرنا بڑی طاقتوں کی ذمہ داری ہے۔