پرانے اور نئے پاکستان میں کشمکش جاری ہے۔ سال بھر کے احتجاجی جلسوں اور پھر اپنے اندر پھوٹ پڑنے کے بعد اب حزبِ اختلاف کی طرف سے پیپلز پارٹی کی پارلیمان کے اندر سے انقلاب لانے کی حکمت عملی کو آزمایا جارہا ہے۔ سیاست کا اونٹ کس کروٹ جا بیٹھتا ہے ابھی تک واضح نہیں ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی بیل منڈھے چڑھتی بھی ہے یا نہیں، یقین سے کچھ نہیںکہا جاسکتا۔ حکومت آئینی اور قانونی حربے استعمال کرکے اس قضیے کو لٹکانے کی پالیسی پرگامزن ہے۔عمران خان ملک بھر میں جلسوں کے ذریعے نئے پاکستان کے تصور کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بھی لتے لے رہے ہیں۔ وہ واضح طور پر ستائیس مارچ کو پریڈ گراونڈ میں ہونے والے جلسہ کو معرکہ حق و باطل کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور اپنے حامیوں کو اسلام آباد پہنچنے کا کہہ رہے ہیں۔ تاکہ اپوزیشن کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی جاسکے۔ ایک فلاحی، خود کفیل اور خود دار ریاست کے تصور کی تکمیل ہوسکے۔ ایسے میں اپوزیشن بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہوئی ۔ حکومتی دعوئوں اور نعروں پر جوابی وار جاری ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک کے جھنڈے تلے جمعیت العلمائے پاکستان (ف) اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قافلے دارلحکومت کی طرف رواں دواں ہیں تاکہ پرانے پاکستان کا جہاز دوبارہ سرزمینِ پاک پر اتر سکے۔ واضح طور پر فریقین تخت یا تختہ کے اصول پر گامزن ہیں۔ صد شکر،عدالتِ عالیہ نے فریقین کو متعین مقامات پر جلسہ کرنے کا کہہ کر اسلام آباد کو اکھاڑہ بننے سے بچالیا ہے۔ سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ کی تشریح کیلیے دائرصدارتی ریفرنس کے کا نتیجہ آنا بھی باقی ہے۔ کیس کی سماعت کے دوران بہت کہا جاچکا ہے۔ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہے! سیاسی چپلقش احتجاجوں اور دھرنوں سے نکل کر آئین اور قانون کے دائرے میں آ ہی گئی ہے ۔ قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان اور توہین آمیز تبصروں سے پرہیز کریں۔ ملک کی دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعمیر و ترقی اور دنیا میں اس کا وقار بلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گندے کپڑے چوکوں میں نہ لٹکائے جائیں۔ حالات جس نہج پر جارہے ہیں، لگتا یہی ہے کہ اب عدالت ہی امپائر ہے اس لیے غصے اور لب ولہجے پر مضبوط گرفت سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے لیے نہایت اہم ہوگیا ہے۔ایسا نہ ہوکہ تبدیلی پارلیمان کی بجائے محلات کے اندر بھونچال لے آئے۔ سیاست کا مطلب جھوٹ، بہتان تراشی اور بدزبانی نہیں بلکہ معاشرتی اقتدار کا لحاظ ہے۔ جن پر چلتے ہوئے ملک کو استحکام اور ترقی کی منازل طے کرانا ہوتی ہیں۔ سیاست اگر اخلاقیات کے تابع نہ ہو تو یہ غنڈہ گردی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر آئین سیاسی پارٹیاں بنانے کی اجازت دیتا ہے، انہیں جسلے کرنے اور عوام سے ووٹ لینے کا اختیار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاشرتی اقتدار کا جنازہ نکال دیا جائے۔ اگر سیاسی قیادت کو عقل نہ آئی تو ریاست کے پاس آئین و عدالت کا راستہ موجود ہے۔ اگر مارشل لاء کا دور گزر گیا ہے تو بنگلہ دیش کا ماڈل موجود ہے۔ نظریہ ضرورت اگر جمہوریت کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے تو نئے حالات میں اس کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایسا نہ ہو۔ اس لیے کسی بھی خوش فہمی کا شکار ہوئے بغیر سیاسی پارٹیاں راہ راست پر آجائیں تو بہتر ہے۔ جمہوریت ایک نظام حکومت ہے۔ اگر یہ سیاسی استحکام نہ لاسکے، ایک چھوٹے سے طبقے کو ہی ایوان اقتدار تک رسائی دے تاکہ وہ اپنے مفادات کی پرورش کرسکے تویہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ اگر ایک جمہوری نظام میں عوام ہی ٹیکسوں کو بوجھ اٹھائیں اور ترقی کے فوائد سے بھی محروم رہیں، تو جمہوریت نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں کٹہرے میں ہونگی۔ کیا جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لینے والی سیاسی پارٹیاں خود جمہوری ہیں یا پھر وراثتی۔ ان کے اندر فیصلہ سازی کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا مقامی سطح پر ان کے تنظیمی ڈھانچے موجود ہیں؟ اور، کیا وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلیے پالیسی سازی کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ اگر پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں تو ان کا حق نمائندگی مشکوک ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ملکی معاملات پر پالیسی سازی کی صلاحیت نہیں رکھتیں تو انکے منشور بڑھکوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر مقامی سطح پر سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سازی نہیں اور وہ اس کے بغیر بھی ووٹ لے جاتی اور ایوان اقتدار تک پہنچ جاتی ہیں تو ایسا وہ لازما ًدھونس و دھاندلی سے کرتی ہیں۔ معاشرتی ناہمواریوں، تین سو تنتیس خاندانوں کی زمینی وسائل اور سرمائے پر گرفت اور کم ازکم تیس فیصد آبادی کا بھوک ، بیماری اور جہالت کے چنگل میں پھنس جانا، جمہوریت پر نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ معزز جج صاحبان کے تبصرے اور یہ امکان کہ صدارتی ریفرنس واپس بھی کیا جاسکتا ہے تو ظاہر ہے اس کے ساتھ کچھ ہدایات بھی منسلک ہونگی جن پر عمل درآمد کے لیے حکومت اور ادارے سب پابند ہونگے۔ زمینی حالات یہی تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اودھم چوکڑی مچا کر معاشی اعشاریوں کو خراب کرنے اور ملکی وقار کو داو پر لگانے کی بجائے اپنی صفیں درست کریں تاکہ وہ نہ صرف مقامی انتخابات بلکہ اگلے عام انتخابات بھی باوقار طریقے سے لڑ سکیں۔ ایک مستحکم، خوشحال اور خود دار پاکستان کے لیے یہ ازحد ضروری ہے۔