جو لوگ امریکہ کے افغانستان سے خالی ہاتھ نکل جانے اور بغیر کسی لڑائی کے کابل طالبان کے حوالے کرنے پر حیران تھے ، یوکرائن پر روسی حملے اور اس کے بعد کی صورتحال ان کے ذہن کی گرہیں کھولنے کے لیے بہت سا مواد فراہم کر گئی ہے۔ بہت سوں کے لیے یہ معجزہ ہی سہی لیکن معاملہ ترجیحات کا تھا۔ ایک عرصہ اس ملک میں پھنسے رہنے سے نہ صرف امریکہ کی مشرق وسطٰی کی پالیسی ناکام ہوئی تھی بلکہ ، ایشیا پیسفک ، جہاں چین نے امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کردیا ہے، وہاں سے بھی توجہ بٹنے کا امکان تھا۔ یوں طالبان سے معاملات طے کر کے امریکہ یہاں سے چلتا بنا۔ ملکوں کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں لیکن طویل المدتی مقاصد نہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ دنیا میں ا پنی اس خارجہ پالیسی کا دفاع کر رہا ہے جس کا واحد مقصد کسی بڑی عالمی طاقت کو اس کے مدمقابل کھڑا ہونے سے روکنا ہے۔ اشتراکی نظریے کی حامل عالمی طاقت ٹوٹی تو امریکہ نے ایک جمہوری دنیا پیدا کرنے کا خواب دیکھ لیا۔ کمزور ملکوں سے آمریت کو بزور بازو رخصت کردیا جانا تھا جب کہ بڑی طاقتوں، جیسا کہ چین اور روس، کو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بنا کر نئے عالمی نظام کے قواعد کا پابند۔پچھلی تین دہائیوں میں اس کی طرف سے کی گئی کوششوں میں انسانی حقوق کا فروغ ، ترقی پزیر ممالک میں آمریت کا خاتمہ اور چین او اور روس کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ممبر بنانا شامل تھا۔ افغانستان، عراق، لیبیا، مصر اور شام میں آمریت کے خاتمے کے لیے فوجی کاروائیوں اور طوائف الملوکی کے ہتھیا ر استعمال کیے گئے تو پچھلے تیس سال میں یورپی یونین اور نیٹو کے مشرقی یورپ یونین تک پھیلاو کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ خطے کو جنگ کے دہانے تک لے آیا ہے۔پوری ایک دہائی، جس کے دوران یکے بعد دیگرے درجن بھر کے لگ بھگ مشرقی یورپ کی ریاستیں یورپی یونین کی ممبر بنیں اور ان میں سے کئی نیٹو کی ، تو روس نے بالآخر حد فاصل کا اعلان کردیا کہ وہ مغرب کی توسیع پسندی کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔ روس میدان عمل میں نکل کھڑا ہوا۔ جہاں اس نے مشرقِ وسطٰی میں امریکہ کے خلاف دیواریں کھڑی کیں، وہیں پر اس نے ایک 'رنگین' انقلاب کے ذریعے لائی گئی حکومت کو یوکرائن سے چلتا کرنے کے لئے وہاں پر فوج کشی کردی ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری حکومتوں کی طرف سے اس کے بینکاری نظام پر لگائی گئی پابندیوں کے جواب میں یورپ کو تیل، گیس اور گندم کی سپلائی روک دی ہے۔ یوں ایک وسیع خطہ مہنگائی اور بھوک کے خطرے سے دوچار ہوگیا ہے۔ اس کشمکش کے اثرات کہاں تک جائیں گے، ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یورپ میں اس وقت جو تنائو کی فضا بنی ہوئی ہے، جس میں جرمنی کے دوبارہ مسلح ہونے کی بات بھی کی جارہی ہے، اس وقت سے یکسر مختلف ہے جب خطے کی سلامتی کی خاطر روس نے سوویت یونین توڑنے جیسا قدم اٹھایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نیٹو کا مد مقابل ،وارسا پیکٹ، بھی ٹوٹ گیا تھا۔ امید تھی کہ اب نیٹو توڑ دیا جائے گا اور یورپ دوبارہ کبھی جنگ کی ہولناکیوں کا شکار نہیں بنے گا۔ روس اپنے آپ کو نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق منظم کرنے میں لگ گیا لیکن امریکہ کسی اور ہی راستے پر جانکلا۔ نوے کی دہائی سے ہی دنیا کی حکومتوںکوجمہوری بنانے کے خواب کا تعاقب کرتے بش ڈاکٹرائن تک پہنچ گیا۔ نعرہ یہ تھا کہ جب پوری دنیا میں ہی جمہوریت ہوگی تو پھر جنگ نہیں رہے گی۔ اگر جنگ نہیں ہوگی تو بھلا کون امریکہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگا؟ امریکی حکمت عملی کی وجہ سے افغانستان اس وقت انسانی بحران کا شکار ہے۔ مشرق وسطیٰ کا امن تہہ و بالا ہے اور یورپ جنگ کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکہ آج خطرات سے کس حد تک دوچار ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں ممالک کے درمیان کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ جو بھی ہوئی ، اس میں امریکہ اور اس کے اتحادی خود ملوث تھے۔ پہلے اگر مشرق وسطٰی میدان جنگ تھا تو اب یورپ۔ چین کے خلاف امریکہ نے ابھی تک محاذ نہیں کھولا۔ روس کے خلاف بھی وہ جنگ میں نہیں جانا چاہتا۔ بس انہیں گھیر کے رکھنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا کا نہ سہی اس وقت وہ جمہوری دنیا کا اپنے طور پر ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ ٹرمپ نے پالیسی بدلنے کوشش کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ناکام ہوا۔ اگر حواری ممالک میں سے کسی نے سرتابی کی تو بازو مروڑے گئے اور راہ راست پر آئے بنا چارہ نہیں رہا۔ جو کام اس نے روسی افواج کے افغانستان کے قبضے کے بعد کیا تھا اب وہی روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد کر رہا ہے۔ یعنی گوریلا جنگ۔ افغانستان کے حوالے سے صف اول کی ریاست کا جو کام پاکستان سے لیا جاتا رہا ، اب وہ پولینڈ، جرمنی اور دیگر ممالک کرنے کے لیے موجودہیں۔ ظاہر ہے روس ایک بڑا ملک ہے، اسے گھیرنے کے لیے وسط ایشیا کی ریاستوں کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ ترکی نیٹو کا ممبر ہے ، اسے بھی اس تنازعے میں گھسیٹا جاسکتا ہے۔ اگلی قسط مشرق بعید میں شروع کی جاسکتی ہے جہاں روس کا اتحادی چین اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کوشاں اور ایشیا پیسفک سے یورپی اقوام کے اثرو رسوخ کے خاتمے کی قسم کھا چکا ہے۔ ادھر امریکہ نے جاپان ، آسٹریلیا ، جنوبی کوریا، فلپائن اور بھارت پر تکیہ کیا ہے۔ یوں ایک بہت بڑا دائرہ ہے جس میں امریکہ تنازعات کھڑے کر رہا ہے۔ کامیابیاں بھی ہونگی اور ناکامیاں بھی لیکن اہم بات یہ ہے کہ جنگ توہوگی لیکن اس کے ساحلوں سے دور ۔ تاکہ اسلحے کی صنعت پھلے پھولے۔