آج نو مارچ ہے ۔اس روز جنوبی ایشیا میں بھیانک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ مغربی بھارت کے کسی مقام سے ایئر فورس کے عملے نے ایک براہموس میزائل فائر کر دیا ۔ یہ میزائل پونے دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان میں میاں چنوں کے علاقے میں آگرا۔ میزائل مسلح نہیں تھا، اس میں کوئی وار ہیڈ نہیں تھا، اس لیے کوئی دھماکہ ہوا اور نہ ہی جان و مال کو کوئی نقصان پہنچا۔پاکستان نے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ۔پہلے صورتحال کو سمجھا ، میزائل سے متعلق تیکنیکی امور کا جائزہ لیا ،بین الاقوامی قوانین کو پیش نظر رکھا اور سے اس واقعہ کی مذمت کی ، اسے افسوسناک اور خطے کی سلامتی کو داو پر لگانے والا واقعہ قرار دیا ۔بھارت کو ایک مشکل یہ آن پڑی کہ وہ یہی میزائل سسٹم ایک ایشیائی ملک کو فروخت کر رہا تھا ،بھارت نے شروع میں اسے تیکنیکی خرابی قرار دیا ۔میزائل میں تیکنیکی خامی ظاہر ہونے پر فلپائن نے سودا منسوخ کرنے کی دھمکی دیدی ۔اب بھارت کے لئے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ حقیقت کو تسلیم کر لے ۔ بھارت نے فوری طور پر تسلیم کیا کہ یہ ایک حادثاتی لانچ تھا اور اس واقعے پر ’شدید افسوس‘ ہوا پاکستان نے جوابی کارروائی کی بجائے مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پاک فضائیہ کی جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق میزائل نے 12,000 میٹر (40,000 فٹ) کی بلندی پر آواز سے تین گنا زیادہ رفتار پر سفر کیا اور گرنے سے قبل پاکستانی فضائی حدود میں 124 کلومیٹر (77 میل) تک پرواز کی۔پاکستان نے کہا کہ میزائل نے "بھارتی اور پاکستانی فضائی حدود میں بہت سی بین الاقوامی مسافر پروازوں کے ساتھ ساتھ زمین پر انسانی جانوں اور املاک کو خطرے میں ڈالا ہے۔"ہر وقت جنگی جنون میں مبتلابھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس واقعے کے بعد دنیا کے شکوک رفع کرنے کے لئے کہا کہ بھارت نے اپنے ہتھیاروں کے نظام کی "حفاظت اور سلامتی" کو ترجیح دی ہے اور اس نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو تحقیقات کے بعد دور کیا جائے گا۔یہ معاملہ پر امن طریقے سے طے ہونے کا پورا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے ورنہ اس پر بھارت کے خلاف کارروائی کا جواز موجود تھا ۔ میزائل فائر کا واقعہ بھارت کی نام نہاد سٹریٹجک فورسز کی تکنیکی نااہلی اور جوہری صلاحیت کے حامل براہموس میزائل کی غیر ذمہ دارانہ ہینڈلنگ جنوبی ایشیا کے جوہری حریفوں کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتا تھا۔ 9 مارچ 2022 کو جوہری وارہیڈ لے جانے کی استعداد رکھنے والا بھارتی میزائل پاکستان میں گرا تو ملک میں ایک سنسنی دوڑ گئی ۔ پاکستان ہمیشہ باور کراتا رہا ہے کہ جوہری ہمسائیوں کے مابین تنازعات کا پر امن طریقے سے حل ہونا ضروری ہے ۔بھارت نے اس پر سنجیدہ طرز عمل کا مطاہرہ نہیں کیا ۔یوں خطے کی سلامتی سے متعلق خدشات موجود ہیں۔ پاکستان کا موقف اصولی تھا ۔بھارت کے لئے ہٹ دھرمی کی گنجائش نہیں تھی ،اس نے پورا سچ بولنے سے گریز کیا اور کہا کہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران "تکنیکی خرابی" کی وجہ اورغلطی سے متعلقہ عملے نے پاکستان پر میزائل داغا تھا۔بھارتی حکام حسب روایت میزائل واقعہ کو اپنے عوام کے سامنے معمولی غلطی بنا کر پیش کر رہے تھے ،کچھ اسے بھی پاکستان کی ناکامی کا اشارہ بنا رہے تھے لیکن حقیقت اس کے الٹ تھی۔ پاکستان کا رد عمل اس قدر نپا تلا تھا کہ بھارت بے بس ہو گیا۔ پاکستان کی جانب سے نئی دہلی کو "ناخوشگوار نتائج" سے خبردار کیے جانے کے بعد دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ عالمی برادری کو "جوہری ماحول میں پاک بھارت تعلقات میں استحکام کو فروغ دینے کے لیے اپنا مناسب کردار ادا کرنا چاہیے"، فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے غلط بیانی کی صورت میں "سنگین نتائج" کا انتباہ کیا گیا ۔فوجی ماہرین نے ماضی میں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کی طرف سے حادثات یا غلط حساب کتاب کے خطرے سے خبردار کیا ، یہ سابق فوجی جنہوں نے تین جنگیں لڑی ہیں اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر متعدد چھوٹی مسلح جھڑپوں میں مصروف رہے فکرمند تھے کہ ان کا ملک ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت سے متعلق عالمی برادری کے سوالوں کا جواب کیسے دے پائے گا۔ اس واقعے نے، جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہو سکتا ہے، فوری طور پر حفاظتی طریقہ کار کے بارے میں سوالات اٹھائے ۔پاکستان نے بھارت سے حادثاتی میزائل لانچنگ کو روکنے کے لیے اپنے حفاظتی طریقہ کار پر وضاحت کا مطالبہ کیا اور پوچھا کہ کیا میزائل کو مسلح افواج نے مناسب طریقے سے سنبھالا تھا؟ براہموس میزائل پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے 90 ڈگری تک مڑ گیا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا کہ ممکنہ طور پر کچھ روٹنگ پروگرام فیڈکیے گئے تھے، جس پر میزائل نے عمل کیا۔ پاکستانی حکام کے اندازے بعد ازاں درست ثابت ہوئے۔ کسی حادثے کی تفصیلات پر بھارت کے دفاعی حکام کی مکمل خاموشی بعض اوقات الٹا نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ ایک بھارتی دفاعی ماہر نے اپنے مضمون میں اس سلسلے میں لکھا ہے کہ ایک بار انڈین ایئر فورس اور یو ایس ایئر فورسکے درمیان ایک مشق ایسی ریاست کے اڈوں پر ہوئی تھی جس پر اس وقت بائیں بازو کی حکومت چل رہی تھی۔ ایئربیس کے باہر کچھ حکومتی سرپرستی میں امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے اور اس کے نتیجے میں میڈیا کی توجہ ناگزیر تھی۔ کسی سرکاری میڈیا بریفنگ کی غیر موجودگی میں، میڈیا ایئر بیس کے درجہ چہارم کے ملازمین کے ان پٹ پر مبنی واقعات کی رپورٹنگ کر رہا تھا جن تک وہ رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ تب یہ احساس ہوا کہ کچھ نہ کہنے اور میڈیا کو غلط معلومات دینے سے بہتر ہے کہ کچھ بتا دیا جائے۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کی اشتعال انگیز رویئے پر تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے ، پاکستان نے ایسے واقعات پر سنجیدہ طرز عمل ظاہر کیا ۔اس واقعہ کو ایک سال بیت چکا لیکن بھارت اب تک خطے کی سکیورٹی سے لاتعلق نظر آتا ہے ،ایسے میں جنوبی ایشیا کے مجموعی عدم تحفظ سے لاتعلق رہ کر بھارت آگے نہیں بڑھ سکتا۔