تین سیاسی جماعتوں ( مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ) سے مذاکرات نہیں ہونگے۔ وفاق اور تین صوبوں کی حکومتیں تسلیم نہیں کرتے ۔ مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے ہونگے ۔سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اور اسی طرح کے مخمصوں اور الجھنوں میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاست گھری ہوئی ہے۔ آج کچھ بیان اگلے دن کوئی اور بیان ۔ آج کسی ترجمان کی وضاحت اور اس کے بعد کسی اور ترجمان کی جانب سے اس وضاحت کی بھی وضاحت ۔ پا رلیمانی سیاست میں تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ، ان سے بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا اور مفاہمت کے امکانات کو روشن رکھنا امر واقعہ ہیں جس سے تحریک انصاف کے بانی اور قائد گریز پر عمل پیرا ہیں۔ جمہوری سیاست میں مکالمہ بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔یہ مکالمہ افراد کی سطح سے شروع ہوکر اداروں اور پھر ریاستوں کے مابین مسائل اور معاملات کو سمجھنے اور انہیں طے کرنے میں رہنمائی کرتا ہے جن سے سیاسی ترقی ،عوامی بہبود اور ریاستی سلامتی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں سنجیدہ مکالمہ کی جس قدر شدت سے ضرورت ہے بد قسمتی سے اس سے اتنا ہی گریز کیا جارہا ہے ۔جس کا نتیجہ سیاسی افراتفری اور پارلیمانی نظام کی کمزوری کی صورت آج ہم سب کے مشاہدے میں ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔ بقائے باہمی کی بنیاد پر ان کے مابین تعلقات ، اختلافات کی موجودگی کے باوجود اتحاد اور تعاون کے امکانات کے ساتھ استوار رہتے ہیں ۔ ان کی کارکردگی سے ہی پارلیمانی نظام کی کامیابی مشروط ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی سیاسی نظام کو کبھی بھی جمہوری اصولوں ،روایات اور تقاضوں کے مطابق اختیار نہیں کیا جاسکا ۔ یہ درست ہے کہ ریاستی اداروں ( فوج ، بیوروکریسی اور عدلیہ ) نے جمہوری سیاسی اداروں کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں ،ان کے قائدین اور کارکنوں نے بھی سیاسی اداروں کو جمہوری اصولوں اور اقدار کے مطابق چلانے اور انہیں مضبوط کرنے میں خاطر خواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں بھی سیاست دانوں کے رویوں میں غیر سنجیدگی نمایاں ہے۔فروری 2024 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے پیدا شدہ صورتحال میں ہر نئے دن کے ساتھ مزید الجھتی جارہی ہے ۔ سیاسی مسائل اور تنازعات جنہیں مکالمہ اور مذاکرات سے طے کیا جانا چاہیئے وہ اب سڑکوں پر احتجاج کی سیاست کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ انصاف روا نہیں رکھا گیا اور اس جماعت کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ نامناسب رہا ہے ۔ تاہم اب صوبوں اور وفاق میں حکومتیں قائم ہو چکی ہیں ۔تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں اکثریتی حکومت موجودہے ، وفاق اور پنجاب میں وہ ایک بڑی اپوزیشن جماعت کے طور پر منتخب ہوئی ہے ۔ لہذا سیاسی بہتری کی طرف قدم بڑھائے جانے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ سیاسی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھا جائے۔ حکومتوں میں شامل تما م ہی سیاسی جماعتیں اس وقت ملک کی نازک معاشی اور سلامتی کی صورتحال سے آگاہ ہیں ۔ اس وقت سیاسی استحکام کے لئے لازمی ہے کہ سیاسی جماعتیں احتجاج کے بجائے اشتراک عمل کا ماحول پیدا کریں اور عوام کی مشکلات کم کرنے میںاپنا بھرپور اور موئثر کردار ادا کریں۔ موجودہ سیاسی حالات میں تحریک انصاف کے بانی کے غیر لچکدار روئیے کے باعث انہیں اور ان کی سیاسی جماعت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔وہ الجھنوں کا شکار ہیں ۔رابطوں کی مشکلات کے باعث ان کی سیاسی حکمت عملی واضح نہیں ہے۔پھر یہ کہ وہ جس طرح اپنے او ر اپنی سیاسی جماعت کے معاملات کو درست کرنا چاہتے ہیں موجودہ صورتحال میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ فروری 2024 گزر چکا ،حالات کے بہائو سے نئی حقیقتیں جنم لے چکی ہیں جنہیں مکمل طور پر نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔انتخابی نتائج سے مطمئن ہونے کی کوئی مستحکم روایت پاکستان کی سیاست میں موجود نہیںہے۔2018 میں جب انتخابی نتائج تحریک انصاف کے حق میں تھے تو دیگر جماعتوں نے اسے کب تسلیم کیا تھا بعینہہ 2024 کے بعد یہی صورتحال آج تحریک انصاف کو درپیش ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے قائد تحریک انصاف کو دیگر سیاسی جماعتوں کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔انہیں یکسر نظر انداز کرنے کی حکمت عملی نے 2018 میں بھی انہیں سیاسی نقصان پہنچایا تھا اور آج بھی وہ پارلیمنٹ میں موجود تین بڑی سیاسی جماعتوں ( مسلم لیگ نواز، پاکستان پپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ) کی سیاسی اہمیت ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ جس سے ان کی سیاسی جماعت کے لئے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ گزشتہ روز ISPR کے ترجمان نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مذاکرات سیاسی جماعتوں کے ساتھ کرنا چاہیئں ۔ ابھی حال ہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ بیان کہ انہیں اور ان کے ادارے کو اپنی آئینی حدود کا پتہ ہے اور وہ اس کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ،ہمارے خیال میں تمامتر تلخ زمینی حقائق کے باوجود اس بیان کو جمہوری سیاست کی ترقی کے لئے خوش آئند سمجھا جانا چاہیئے۔اور امید کی جانی چاہیئے کہ تمام ریاستی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر ہی اپنے فرائض ادا کرتے رہنا چاہیئں ۔ کسی ادارے کو بھی خواہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو اسے دیگر اداروں کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے سے گریز کرنا چاہیئے۔ یہی درست راستہ ہے اور اسی روش کے تسلسل سے سیاسی ، انتظامی اور عدالتی ادارے مستحکم ہو سکیں گے اور اس کے لئے سیاسی قائدین کو ابتدائی قدم بڑھانے ہونگے ۔سیاست میں ذاتی انا ،نفرت، غصہ اور انتقام کو جماعت کی پالیسی نہیں ہونا چاہیئے۔یہ بات خدا کرے بانی تحریک انصاف جتنی جلد سمجھ لیں ان کے لئے ، ان کی جماعت کے لئے اور اس ملک کی سیاست اور عوام کے لئے بہتر ہوگی۔ وما علینا الی البلاغ ٭٭٭٭٭