وفاقی کابینہ نے روس سے ساڑھے چار لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں چارنکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ جن میں ایک ایجنڈا یہ بھی تھا کہ روس سے تین سو بہتر ڈالر فی میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظور ی دی جائے۔ پارس مزاری نے محبتِ محبوب میں خریداریِ گندم کے متعلق کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ ’اپنی پسند چھوڑ دی اْس کی خرید لی،ورثے کا کھیت بیچ کے کوٹھی خرید لی؛ ویسے تو نرخ کم ہی تھے گندم کے اِس برس،آئی تھی تیرے گاؤں سے مہنگی خرید لی‘۔ پاکستان کو قیام سے اب تک کئی طرح کے سانحات کا سامنا رہا ہے۔ملکی بدحالی کی درجہ بندی کی جائے تو شاید سیاسی عدم استحکام پہلے، طالع آزماؤں کی مہم جوئی دوسرے، بدترین گورننس تیسرے، ناقص منصوبہ بندی چوتھے اور مفادِ عامہ کا خیال پانچویں نمبر پر محسوس ہوتا ہے۔قیام سے اب تک ہمیں سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ سیاسی عدمِ استحکام سے ہمیں سماجی و معاشرتی استحکام بھی نصیب نہیں ہوا۔ کبھی ہم لبرل، کبھی مذہبی، کبھی نیم مغربی اندازِ معاشرت اپنانے کے حامی رہے ہیں۔ پریشان کن صورت حال تو یہ ہے کہ ہمار دین جو ہمارا خوبصورت نظام ِ حیات ہے اْسے بھی مفاد پرستانہ سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ہمارے ہاں جیسی بھی حکومت قائم ہو وہ آغاز سے ہی عدم ِ اعتماد کا شکار ہوتی ہے۔مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، نوازلیگ، ق لیگ، تحریکِ انصاف سمیت سبھی جماعتوں کو جب جب حکومت نصیب ہوئی تو انتہائی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں بدترین گورننس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ ہماری حکومتوں میں جامع منصوبہ بندی کا نام و نشان ہی نہیں۔ ہر حکومت اپنے مفاد کے پیش نظر پالیسی ترتیب دیتی ہے جسے وہ مفادِ عامہ کا نام دیتی ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے الٹ ہی ہوتا ہے۔ پھر بھی جونہی حکومت ختم، پالیسی بھی ختم۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے دورِ حکومت میں ریاست کو تجربہ گاہ بنائے رکھا۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حکومت کی پالیسیوں میں مفادِ عامہ کبھی کسی دور میں بھی پہلے نمبر پر نہیں رہا۔ مثلاً پاکستان تقریباََ ہر سال کئی طرح کے سانحات کا سامنا کرتا ہے۔ ہماری حکومت نے اِن سانحات کی دو طرح کی اقسام میں درجہ بندی کررکھی ہے۔ قدرتی آفات اور انسانی (مصنوعی) آفات۔ قدرتی آفات میں زلزلہ، سیلاب، آندھی، طوفان وغیرہ جبکہ انسانی آفات میں عمارتوں کا گرنا، آتشزدگی، ٹریفک حادثات وغیرہ شامل ہیں۔ حالانکہ جرمنی کی تحقیق کے مطابق قدرتی آفت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔ جرمن سائنسدانوں کے مطابق زلزلوں اور سیلابوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں انسانی ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں بڑے پیمانے پر درختوں کو کاٹا گیا ہوتا ہے۔ یا زمین کے کسی خطہ سے بڑے پیمانے پر کھدائی کی گئی ہوتی ہے یا پھر سمندر کا رخ موڑنے کے لئے نہری نظام بناکر سمندر کا نظام بگاڑا گیا ہوتا ہے جس کے طفیل ٹیکٹونک پلیٹس اپنی جگہ بدلتی ہیں۔ جن کے نتیجے میں دریاؤں کا رخ بدل جاتا ہے، تہذیبی بدلاؤ آتا ہے۔ شہر کے شہر نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔ نئے گاؤ ں اور شہر وجود میں آتے ہیں۔ نئی چراہ گاہیں بنتی ہیں اور نئے ممالک کا ظہور ہوتا ہے۔ ماہرین ِ آثار قدیمہ بتلاتے ہیں کہ قریباََ سات ہزار سال قبل جب ٹیکٹونک پلیٹس نے اپنی حالت بدلی تو دریائے ہاکڑا یا گھاگھرا، یا گھاگر (ہندی زبان میں ’سرسوتی‘) کے پانی کا رخ بدل گیا۔ محض دریا کے رخ بدلنے سے سات ہزار سال پرانی شان و شوکت والی ہاکڑا تہذیب کا وجود مٹ گیا اور دریائے ہاکڑا کے کنارے آباد شہروں اور قصبوں میں مقیم آبادی کو وہاں سے کہیں اور منتقل ہونا پڑا۔ یوں سرسبز کھیتوں سے لہلاتی، ہری بھری تہذیب دنیا کے نقشہ سے مٹ گئی اور تہذیب کے باسیوں نے روہیلوں کا روپ دھار کر وطن سے محبت کے طفیل آج بھی صحرائے چولستان کی ریت پر بستر لگارکھے ہیں۔ ہاکڑا تہذیب کے درخشاں ماضی اور اِن روہیلوں کے شاید انہی جذبوں کو دیکھ کر خواجہ غلام فرید نے کیا خوب فرمایا کہ ’ہن تھی فریدا شاد ول،مونجھیں کوں نہ کر یاد ول؛ جھوکاں تھیسن آبادول، اے نئیں ناواسی ھک منڑی‘۔ ترجمہ: اے فرید! شادو آباد رہو، غموں کو یاد نہ کرو، امید رکھو یہ گھر دوبارہ آباد ہونگے، یہ نہر (دریا) یک کنارا نہیں بہے گی۔ کچھ عرصہ قبل جنابِ ارشاد احمد عارف نے شاید مئی 2015میں ایک قومی اخبارمیں ’روہی تھیسی آباد ول‘ کے نام سے ایک کالم میں یہ آواز اٹھائی تھی کہ نواب صاحب بہاولپور صادق محمد خان عباسی نے ریاست کا پاکستان سے الحاق کیا، قائداعظم کی کراچی آمد پر اپنی رولز رائس کار گورنر جنرل کو استعمال کے لئے پیش کی اور اپنی ایک کوٹھی الشمس دان کی۔ مگر صلے میں آج تک کوئی بڑی شاہراہ، عمارت اور بیراج تک نواب صاحب سے منسوب نہیں ہوئی جبکہ لاہور میں سڑکیں، پل اور عمارتیں بعض ایسے ایسوں سے موسوم ہیں جن کی قومی خدمات سے افراد خانہ واقف نہ محلے دار‘۔ روہی کو رنگوں کی کہکشاں عطا ء کرناتو درکنار ہماری حکومتیں آج تک سانحات کے متعلق کوئی قومی منصوبہ ترتیب نہیں دے سکیں۔ ہر سال ہم سیلاب کا سامنا کرتے ہیں، ہر سال سیلابی پانی تباہی مچاتا ہوا، گھروں، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں او ر قیمتی انسانی جانوں کا نقصان کرتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سبھی آئنی و قانونی ادارے محض مسمار گھر، جاں بحق افراد کی تعداد اور تباہی کا تخمینہ لگاتے رہتے ہیں اور عالمی برادری سے بھیک کی اپیل کرتے ہیں۔ شاید ہمارے حکمرانوں نے یہ وطیرہ بنارکھا ہے کہ بھیک کا کشکول نہیں توڑنا۔ان کی عیش پرستانہ عادات کے پیش نظر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ مفادِ عامہ تو ایک طرف شاید ہماری حکومتوں اور حکومت بنانے والوں نے اپنی بے ضمیری، وطن فروشی، عوام دشمنی کو اپنا لائف سٹائل بنا لیا ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ زندگی کی تمام تر سہولیات اور تمام تر اختیارات میسر ہونے کے باوجود حکمران پیسے، جاہ و جلال اور رتبہ کی لالچ میں اس قدر اندھا ہوجائے کہ سامنے عوام بھوک سے مررہی ہو، ملک تباہ ہورہا ہو، سانحات عوام کی جان و مال سے کھیل رہے ہوں اور حکمران ایسی افسوس ناک صورت حال میں بھی پیسہ بنانے اور جائیدادیں خریدنے کا سوچ رہے ہوں؟ شاید یہ ایک باضمیر انسان کے بس کہ بات نہیں مگر پاکستان میں یہ ممکن ہے!