تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟ انتخابات اکتوبر میں بھی ہو پائیں گے یا نہیں؟ کیا آئی ایم ایف سے پاکستان قرض لینے میں کامیاب ہو جائے گا ؟ او ر عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین بالادستی کی کشمکش میں کون سرخرو ہوگا ؟ یہ اور اسی طرح کے بہت سے معاملات ہیں جن پر حکومت اور تمام اداروں کی توجہ مرکوز ہے ۔سیاست دانوں کے بیانات سے لے کر میڈیا کے پرائم ٹائم پروگراموں تک ان موضوعات پر دانائی کے موتی بکھیرے جارہے ہیں ۔یاسیت اور بے یقینی کے اندیشوں کے سوا کوئی اور نسخہ ان کے دست ہنر میں موجود نہیں ہے۔ اور ستم تویہ کہ جو موضوع اہم ترین ہے اسے ہر سطح پر جانتے بوجھتے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہ ہے ریاست کے عام شہری کی زندگی ،اس کے مسائل،اس کی کم ہوتی روزمرہ کی سہولیات،اس کے جان و مال کا تحفظ ،بیروزگاری اور ان سب پر مستزاد مہنگائی کی بے قابو ہوتی صورتحال۔ اس کی حکومت کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی میڈیا کے لئے یہ ریٹنگ حاصل کرنے کا کوئی موضوع۔23کروڑ کی آبادی کا یہ ملک چند ہزار مفاد پرستوں اور مراعات یافتگان کے ہاتھوں یرغمال بنادیا گیا ہے۔ عام آدمی کے لئے پاکستان کی سماجی اور معاشی صورتحال تو کبھی بھی قابل رشک نہیں تھی مگر گزشتہ چند برس سے ریاست اور سیاست کے معاملات جس طرح چلائے جارہے ہیں اس نے عام شہری کے لئے زندگی کو ایک عذاب بنادیاہے۔صرف روزمرہ ضروریات کی اشیا ء کی ہی اگر بات کی جائے تو روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کا حصول مشکل تر کردیا ہے۔آٹا، دالیں، چاول ،چینی، کوکنگ آئل، دودھ، چائے کی پتی،سبزیاں اورچکن جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس کا کوئی بھی جواز دیا جائے لیکن یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور ان کی نگرانی کا کوئی انتظام ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو وہ کس قدر موثرہے کسی کونہیں پتہ۔ اسی کے ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے نہ صرف تنخواہ دار طبقے کے بجٹ کو تلپٹ کر رکھا ہے بلکہ بجلی کے بلز کا خوف ایک آسیب بن کر عوام کے ذہنوں پر سوار رہتا ہے ۔بجلی دستیاب ہی کم ہوتی ہے پھر یہ کہ اس کے استعمال میںحد درجہ احتیاط بھی کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود بل ہر ما ہ نت نئے اضافوں کے ساتھ ہی ملتا ہے ۔ اچھی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولیات اب محض امراء اور اشرافیہ ہی کے لئے رہ گئی ہیں۔ علاج معالجہ پر بات کی جائے تو دوائوں کے بجائے عوام کے لئے بس اب دعائیں ہی رہ گئی ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق مئی 2023کے دوران مہنگائی میں38 فیصد اضافہ ہوا ہے جو نہ صرف ملکی سطح پر بلند ترین شرح ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی یہ بلند ترین شرح ہے۔ کم ہوتے ہوئے ذرائع آمدنی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث جینا کتنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکمرانوں کو اس سے کیا غرض ؟ یہ و زیر اعظم شہباز شریف ہی کے الفاظ تھے جس کی گونج آج بھی کانوں میں کانٹوں کی طرح چبھتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ میں غریبوں کو سستا آٹا فراہم کرونگا چاہے مجھے اپنے کپڑے ہی کیوں نہ بیچنا پڑیں ۔معلوم نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کو اس بات کی خبرہے بھی کہ نہیں کہ آج آٹا کس قیمت پر فروخت ہو رہا ہے او ر وہ کہیں کمیاب ہے توکہیں نایاب۔ ایک اور موقع پر وزیر اعظم صاحب نے فرمایا کہ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں جا کر منہ چھپائوں ؟ حکمرانوںکے اس طرح کے بیانات عوام کے ساتھ مذاق سے کم نہیں ۔ ریاست کے معاملات اس طر ح نہیں چلتے ۔ امور حکمرانی میں اس طرح کے بیانات کو نااہلی اور ناکامی سمجھا جاتا ہے مگر شاید پاکستان میں نہیں۔ جب ہی تو اس کے اظہار میں کسی تاسف اور شرمندگی کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔حکمران جوش خطابت میں جو چاہیں کہہ دیں انہیں اپنی باتوں پر کونسا عمل کرنا ہے ۔کون ہے جو ان سے باز پرس کرے؟ ایک ایسی ریاست جس کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کے لئے قرضے بھی اب دستیاب نہیں ہیں، اس کے حکمرانوں کو غیر ملکی دوروں سے ہی فرصت نہیں ۔ تاج پوشی برطانوی بادشاہ کی ہورہی ہو یا انتخابات میں ترکی کے صدر کی کامیابی کا موقع ہو ،وزیر اعظم شہباز شریف اخراجات کی پرواہ کئے بغیر وہاں اپنی موجودگی ضروری سمجھتے ہیں ۔کیا موجودہ معاشی صورتحال میں حکمرانوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ان مشکل حالات میں اپنے اخراجات واقعتا کم کردیں ۔سادگی اختیار کریں اور ملکی اور غیر ملکی دوروں سے احتراز کریں ۔عوام جن کی خدمت کا دعوی کرتے حکمرانوں کی زبانیں نہیں تھکتیں اپنے طرزعمل اور بود و باش سے بھی تو ثابت کریں کہ وہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ریاست کے حکمران ہیں۔ جب ہمارے حکمران قیمتی لباس زیب تن کئے ہوئے غیر ممالک میں قرضوں کے لئے دست طلب پھیلائے رہے ہوتے ہیں تووہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور منافقت پرنہ جانے کیا سوچتے ہونگے؟ بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے تمام سرکاری ملازمین کیلئے فرسٹ کلاس کے ذریعے سفر پر تا حکم ثانی پابندی عائد کردی ہے ۔ اس سے پہلے وہ سرکاری اخراجات میں کمی کی خاطر غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی لگا چکی ہے۔یہ اور اس طرح کے اقدامات صرف وہی حکومت کرسکتی ہے جو اپنے ملک کی حالت بہتر کرنے کا مصمم عزم رکھتی ہو ،جسے اپنے عوام کے دکھوں کا ادراک ہو اور جس کے حکمران ان کا مداوا بھی چاہتے ہوں۔ پاکستان میں وہ دن نہ جانے کب آئیگا جب حکمران اس سوچ پر عمل پیرا ہونگے؟ ریاست کی بنیادی ذمہ داری شہریوں کے لئے ایک بہتر ،باوقار اور محفوظ زندگی گذارنے کے ماحول کی فراہمی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست کی سیاست اور معیشت اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہو اور وہ اسے درست کرنے میں سنجیدہ بھی ہوں۔ بد قسمتی سے اس وقت زمام اقتدار جن ہاتھوں میں ہے وہ نہ تو اب تک اپنی اہلیت ثابت کرسکے ہیں اور نہ ہی ان کی کوششوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی مسلسل بے حسی اور عوام کے مسائل سے بے توجہی ان کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔ تاریخ کے صفحات پر تو یہ ہی کچھ لکھا ہوا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا !!