حالات کی فکر میں دماغ معوف ہوچکا، بگارڈ کی اصل وجہ پر توجہ دی جا رہی ہے نہ عوام کو اس کی خبر ہونے دی جارہی ہے، موجودہ حالات کے بارے میں محتاط انداز میں کہا جاسکتا ہے: "کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے… جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے". 1969 میں وفات پانے والے ملک کے چوتھے گورنر جنرل سکندر مرزا کی خود نوشت 2023 ء میں سامنے آ رہی ہے تو موجودہ سنگینی کی جڑیں کب سامنے آئینگی؟ اندازہ لگانا قدرے مشکل نہیں، سائفر گمشدگی کا ایک اور مقدمہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف درج کر لیا گیا، یہ خبر میز پر پڑے اخبار کے صفحہ اول پر اشاعت کی صورت میں آنکھوں کے سامنے ہے، کئی زاویے اور نکات جواب طلب ہیں، ان کا جواب کیسے اور کب حاصل ہوگا؟ بادی النظر میں دو عالمی طاقتوں کے مابین سرد جنگ کی حرارت اپنا آپ زائل کر رہی ہے، یوکرائن کی جنگ سے بیشتر یورپی ممالک کو معاشی اعتبار سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے، روس، یوکرائن جنگ کے بعد وہ یورپی ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کیلئے قدرتی گیس سے صاف توانائی کے منصوبے تشکیل پا رہے تھے، ان منصوبوں کو نہ صرف سردخانے کی نذر کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ جی سیون ممالک روس کی گیس سے آمدن کو روکنے میں مصروف ہیں، بیلا روس پولینڈ پر حملے کیلئے پر تول رہا ہے، پولینڈ نیٹو ممالک میں شامل ہے، روس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ تن تنہا یہ سب نہیں کرسکتا، چین کی اندرون خانہ اس کو حمایت حاصل ہوگی، ماسکو کے تناظر میں چین کے کردار کو مشکوک دیکھنے والے امریکہ کو کئی اعتبار سے چین کھٹک رہا ہے۔ دنیا بھر میں ممالک کے ساتھ چین اقتصادی محاذ پر روابط مضبوط کر رہا ہے اور ان ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکی طرز پر مداخلت کی بجائے انھیں معشیت کی مضبوطی کا راستہ باہمی سرمایہ کے ذریعے دیکھا رہا ہے۔ وسطی اشیا میں چین کی دلچسپی امریکہ کو ہضم نہیں ہورہی، لہذا بھارت منی پور جیسے واقعات کے باوجود امریکی خواہشات پر خطے میں خوش فہمی کے تحت چوکیدار سے بڑھ کر ٹھیکدار بننے کی غلطی میں مبتلا ہے۔ امریکہ کو چین کے کردار کی بدولت مشرق وسطی کے ممالک اور ریاستوں کے درمیان خوشگوار ہوتے تعلقات بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کو فروغ دینے کی چینی کاوش امریکہ کی طویل حکمت عملی کی نفی ہے۔ جسے تا وقت ناجانے کیسے برداشت کیا گیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے خوشگوار تعلقات کے براہ راست مثبت اثرات پوری اسلامی دنیا سمیت پاکستان پر مرتب ہوںگے، اس سے واحد اسلامی ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان جس کے پاس دنیا کی چوتھی بڑی اور طاقتور فوج ہے، سب سے بہترین نہری نظام موجود ہے، چھ ٹریلین ڈالر سے زائد کے کاپر اور سونے کے ذخائر موجود ہیں، جو صرف شعبہ زراعت سے سالانہ 30 سے 40 بلین ڈالر کما سکتا ہے۔ کوئلے کے ذخائر سے دو صدیوں تک بجلی پیدا کر کے کئی ایشیائی ممالک کو برآمد کر سکتا ہے۔ 700 سے 1000 کلومیٹر طویل کوسٹل ہائی وے پر سنگا پور کی طرز پر چار سے پانچ بڑے ہائی ٹیک شہر آباد کر سکتا ہے، جو دنیا کے خوبصورت ترین 30 پہاڑی سلسلوں کی بدولت ٹورازم سے اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ اس پاکستان کے وجود کو ہضم کرنا امریکہ کیلئے آسان کام نہیں، 18 ویں صدی کے آخر اور 19 ویں صدی کے آغاز سے معاشی و اقتصادی ترقی کا ایک دور امریکہ کو مرکز بنا کر شروع ہوا تھا، جب دنیا بھر کے کاروباری اور سرمایہ کار احباب اس جانب رخ کرتے رہے۔ موجودہ صدی وسطی اشیا کی ترقی کی صدی کے طور پر بیان کی جا رہی ہے، خطے میں امریکی اثرورسوخ جس حد تک مشرق وسطی کی ترقی کو سست رکھنے میں کارآمد ثابت ہو رہا ہے، اسی رفتار سے چین اکانومی کی افزائش کے فارمولے کے تحت خطے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی دانستہ کوششوں میں مگن ہے۔ بھارت اس کھیل میں امریکہ کا اہم کھلاڑی ہے لیکن چین بھارت کو اس ترازو میں اپنا پلڑا بھاری نہیں کرنے دے رہا۔ اب بھارت کو چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری برداشت نہیں، اوپر سے ہمارے سابق وزیر اعظم جس روز روس نے یوکرائن پر حملہ کیا، ماسکو میں پیوٹن کے ساتھ موجود تھے۔ لہذا وطن عزیز میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیچھے بھارت کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ وطن عزیز میں معاشی و اقتصادی بحران کے کچھ ہم ذمہ دار ہیں اور کچھ بیرونی طاقتیں! اگر آئی ایم ایف نے ملکی تاریخ کی ناکام ترین حکومت سابق پی ڈی ایم سرکار کو رگڑے پر رگڑا لگا کر نویں جائزے کے تحت تین ارب ڈالر کی قسط کا اجراء کیا تو وجوہات محض وہ نہیں تھیں، جن کا پردہ سکرین پر واویلا رہا، اندرون خانہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ایٹمی مملکت خدادا پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے کیونکہ خدانخواستہ ایسا ہونے کی صورت میں چین کی براہ راست مدد پاکستان جو برملا امریکہ یا چین کس بلاک میں شامل ہوگا؟ خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے والے پاکستان کے پاس بہت آسان حل ہوگا کہ وہ چین کے ساتھ جا ملے۔ امریکہ اسے اس لیے بھی گوارہ نہیں کرسکتا کہ اس صورت میں پاکستان میں وہ حکمران سیاسی چہرے برسرپیکار نہیں رہ سکیں گے جن کی ترجیحات کے باعث معدنیات، قدرتی وسائل، سٹریٹیجک حیثیت اور 64 فیصد نوجوان آبادی کا حامل ملک پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر پا رہا اور پوری دنیا میں امداد کا کشکول لے کے گھومنے پر مجبور ہے۔ یہاں اس امر کا اظہار اہم ہے کہ بھارت خود کو عالمی طاقت کے طور پر دیکھنے کے غرور میں مبتلا ہے، اسے سلامتی کونسل میں ویٹو پاور بھی چاہئے اور امریکی چھتری تلے روس سے سستا تیل بھی، یہودی سرمایہ کا زعم بھارت کو الگ ہے۔ مادر وطن پاکستان اس کشمکش میں مشرق وسطی کی اہمیت کے پیش نظر سی پیک کی اہمیت کی بدولت عالمی سازشوں پر مبنی حالات کو نظر انداز نہیں کرسکتا، ان حالات میں انتخابات کے چار ماہ انعقاد میں تاخیری حربوں سے یہ ہوگا کہ سرمایہ کار مزید خائف ہوںگے، مزید سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگا، مزید ہنر مند نوجوان اور دیگر افراد بیرون ملک چلے جائیںگے، چین چند ماہ قبل ہمیں مشورہ دے چکا ہے کہ سیاسی انتشار ختم کریں۔