یہ سوال ہمیشہ سے میرے لئے پریشان کن رہا ہے کہ آخر وہ کون سی وجہ ہے، جس کی وجہ سے جب سے پاکستان بنا ہے ہم ہر طرح کی تباہی کی دلدل میں ہی دھنستے جا رہے ہیں۔ باوجود کہ آپ جس سے بھی پوچھیں وہ تو یہی کہے گا کہ اس سے بہتر انسان شاید روئے زمین پر نہیں ہے۔ اس نے اپنے اچھے کاموں کا مکمل دیوان مرتب کر رکھا ہو گا، جس میں اپنے عقیدے اور عزیز و اقارب دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں برسی میں لمبی بحر کی غزلیں اس نے مرتب کر رکھی ہوں گی۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ اس نے کبھی دھوکہ نہیں دیا‘ کبھی لالچ نہیں کیا، کبھی کسی کا حق نہیں کھایا، ہمیشہ دوسروں کے لئے قربانی دی ہے‘ اپنا وقت اور سرمایہ لگا کر دوسروں کی خدمت کی ہے لیکن کسی نے میرے ساتھ وفا نہیں کی۔بہت ہی کم ہوں گے جو دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات و معاملات سے مطمئن ہوں گے اور اس کا اظہار بھی کریں گے، میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اگر ہمارا معاشرہ ایسے ہی اچھے افراد سے مل کر بنا ہے جو ہر وقت دوسروں کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار رہتے ہیں، تو پھر ایسے افراد تو نیچے سے لے کر اوپر تک ہر جگہ ہی ہونے چاہئیں۔ اور اگر ایسے ہی لوگ ہمارے اجتماعی معاملات کے ذمہ دار ہیں تو پھر تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی لیکن اس ترقی کی دوڑ میں تو ہمارے ہمسایوں بھارت چین و افغانستان اور ایران ہم سے تو آگے ہی ہیں۔ ہمارا کوئی بھی بندہ ان میں کسی بھی ملک میں عارضی طور پر جائے یا لمبے عرصے کے لئے ہمیشہ ان ملکوں کے لوگوں کی تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے اور اسے اپنے ملک اس کے نام اور اس کے لوگوں میں اور زیادہ خرابیاں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں اور اگر کوئی یورپ یا امریکہ کا چکر لگا لے یا ادھر جا کر رہنا شروع کر دے تو اس کا تو دماغ ہی گھوم جاتاہے کہ یہ کون سی دنیا کے لوگ ہیں؟ہمارے انفرادی کردار میں ایسی کون سی خرابی ہے‘ایسا کون سا فرق ہے جو ہمارے معاشرے کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے؟ اس طرح کا سوال میرے ذہن میں ہو تو میری عادت ہے کہ پھر ہر ممکن طریقہ سے اس کا مناسب جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کرتا رہتا ہوں، جس میں ایک طریقہ سمجھدار لوگوں سے گپ شپ بھی ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت 70سالہ تجربے سے گندھے ہوئے ملک اقبال اختر اعوان بھی ہیں۔انہوں نے چٹکی میں مسئلہ ہی حل کر دیا۔کہتے ہیں ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم بہت حریص قوم ہیں،ایک عام مزدور ریڑھی اور ٹھیلے والے اور دودھ فروش سے لے کر سب سے اوپر والے آدمی تک اکثریت کے کردار کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ سب حریص ہیں۔حرص و لالچ میں اپنے ذاتی مفادات کی غرض سے ہم کسی کا حق کھانے سے یا اسے نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتے۔یہ لالچ و حرص ہمارے کردار پر اتنا غالب آ گیا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا خوف بھی نہیں رہا۔ ملک صاحب کی بات سن کر میں اسی طرح کے خیالات میں گم سا ہو گیا اور جتنا سوچتا جاتا ان کی بات کی سچائی پر یقین میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ یہ حرص ہی ہے،جس کی وجہ سے کوئی کتنے ارب ہی کیوں نہ اکٹھے کر لے اس کی مزید دولت اکٹھی کرنے کی ہوس ہی ختم نہیں ہوتی۔ ہم نہ صرف اپنے لئے بلکہ آئندہ آنے والی نامعلوم نسلوں کے لئے بھی دولت کے انبار لگا کر جانا چاہتے ہیں۔ حرص کیا ہے؟حرص یہی ہے کہ آپ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا یا دولت یا کوئی بھی چیز حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہوں ذرا سوچیے ہم سے کتنے ہیں جو ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش نہیں رکھتے،شاید کوئی بھی نہیں اور یہی ضرورت سے زیادہ اکٹھا کرنے کی خواہش نے ہمارے معاشرے میں صحت مند مقابلے کی بجائے آپا دھاپی‘چھینا جھپٹی اور مارو ماری کی دوڑ میں سب کو ڈالا ہوا ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ تو یہ ہے کہ مکہ کی انتہائی دولت مند خاتون کے خاوند ہونے کے باوجود جب نبوت کا اعلان فرمایا تو چند ہی سالوں میں نوبت فاقوں تک آ گئی،وہ مدینہ میں گئے تو آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی ؓ مزدوری کرتے 16کھجوریں ملتیں، نبی کریمﷺ کے ساتھ آدھی آدھی کرتے اور بڑے عرصہ تک روزانہ آٹھ کھجور خوراک پر گزارا کرتے رہے۔ فتح مکہ کے بعد پورا عرب آپؐ کی حکومت کا حصہ تھا لیکن دنیا سے کوچ کرنے سے قبل ام المومنین سے پوچھا تو پتہ چلا گھر میں چھ درہم ہیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیے اپنے ورثاء کے لئے چھوڑ کر نہیں گئے۔یعنی ضرورت کا بھی نہیں رکھا۔چہ جائیکہ ضرورت سے زیادہ رکھتے۔ ادھر جب امریکہ سے اپنے معاشرے کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں، تو انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔فوربز میگزین کی ٹاپ چندے دینے والے لوگوں کی سالانہ فہرست میں کبھی کوئی مسلمان نہیں ہوتا۔یہاں سینکڑوں مثالیں ہیں کہ لوگ دنیا سے جانے سے پہلے اپنی دولت دوسروں کی بہتری کی راہ میں خرچ کر کے گئے ہیں۔یہاں ماپ کے لئے لازم نہیں کہ بیٹے کے لئے جائیداد چھوڑے اور نہ ہی بیٹے کی باپ کی دولت پر نظر ہوتی ہے۔وہ عام طور پر اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ہر کامیاب آدمی دنیا سے جانے سے قبل کوشش کرتا ہے کہ اپنے معاشرے‘قوم اور لوگوں کو کچھ لوٹا کر جائے۔2010ء میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہم چند پاکستانی صحافیوں کو فلوریڈا کے شہر ٹیمپا اور سینٹ پیٹرز برگ میں واقع پوائنٹرز کالج آٹ کمیونی کیشن کا دورہ کروایا تو پتہ چلا کہ یہ سکول و کالج سینٹ پیٹرز برگ ٹائم کے بانی نے مرنے سے پہلے قائم کئے تھے،اس سوچ کے ساتھ کہ جس سماج نے انہیں اتنی بڑی کامیابی سے نوازا وہ اس کے بدلے میں اس کے لئے کچھ کریں یہ جو مرنے سے قبل معاشرے کو لوٹانے کا کلچر ہے، یہ مغرب میں بہت عام ہے۔ یہی شاید ہمارے اور ان کے کردار میں بنیادی فرق ہے کہ بل گیٹ اعلان کر دیتا ہے کہ وہ اپنی 103ارب ڈالر دولت چندہ کر دے گا۔مارک زگر برک 45ارب ڈالر دولت اپنی بیٹی کے نام کی فائونڈیشن کو دے دینے کا اعلان کر دیتا ہے۔ کسی صدر اور وزیر یا گورنر اور میئر پر کبھی کوئی بدعنوانی کا الزام نہیں لگتا اور اگر لگ جائے،توہ اتنا شرمندہ ہوتا ہے کہ استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا ہے اور اس کا کیریئر بھی ختم ہو جاتاہے۔ہم ہیں کہ ڈٹ جاتے ہیں فرق صرف یہی ہے کہ ہمیں حرص کہیں کا نہیں چھوڑتی اور انہیں بے نیاز سربلند رکھتی ہے۔