وہ دفتر سے نکلاتو بے حد خوش تھا،اُس کے اکائونٹ میں دوچار’’پارٹیوں‘‘کی طرف سے ’’عیدی‘‘منتقل ہو چکی تھی۔ اُس نے اے ٹی ایم سے پچیس ہزار نکالے،جو مسجد میں اے سی کے لیے تھے۔ مسجد میں اے سی لگوانے میں ’’ حصہ ‘‘ڈالنے کے تصور نے، اُس کو مزید خوش اور مطمئن کردیا۔ گھر پہنچا تو، بیوی سامنے کچھ پیسے رکھ کر حساب کتاب کررہی تھی۔ ’’پانچ ہزار گھر میں کام کرنے والی ماسی کے،دس ہزار بچوںکی عید کی خریداری کے، اور یہ دوہزار خیرات کے۔ یہ دوہزار ماسی کو دوں،دفتر کے بوڑھے چپڑاسی کویا کسی اور کو ؟‘‘ وہ بولا ’’یہ معمولی رقم کسی کو بھی دے دو،سوچ و بچار کیسا؟‘‘ بیوی بولی ’’مہینے کی تنخواہ سے یہ پیسے مشکل سے الگ کیے ہیں۔ انہیں اصل حق دار تک پہنچنا چاہیے، محنت کے ہیں‘‘ یہ سن کر اُس کا خیال لحظہ بھر کیلئے 25 ہزار کی طرف گیا،لیکن پھر افطاری کے اہتمام میں لگ گیا۔