حکومت کے عوام پر احسانات کا کچھ حساب ہی نہیں۔ روز ایک نیا احسان ۔ انسان کس کس کا ذکر کرے۔ اس دفعہ تو حکومت نے کمال ہی کر دیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیا بلکہ تیل کی قیمت میں کمی بھی کر دی ہے۔میں اپنی گاڑی میں عموماًً بیس لٹر پٹرول ڈلواتا ہوں جو تین چار دن چل جاتا ہے۔ چار یا پانچ دن پہلے میں نے پٹرول پمپ والوں کو بیس لٹر پٹرول کے مبلغ پانچ ہزار چھ سو چھیاسی (5686/-) روپے ادا کئے تھے۔ اب حکومت نے نئے ریٹ کا اعلان کیا تو نئی رعائتی قیمت پر میں نے بیس لٹر پٹرول صرف پانچ ہزار چھ سو تنتالیس(5643/-)روپے میں خریدا۔گو تنتالیس روپے کا فرق ایک شرمندگی سے زیادہ کچھ نہیں لیکن خوشی تو یہ ہے کہ ریٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔اس احسان عظیم پر قوم خوشی سے پھولی نہیں سما رہی، ورنہ اضافے کا عذاب بھی بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔پٹرول مہنگا ہونے سے میرے سمیت لوگوں کی نقل و حمل کچھ عرصے بہت کم ہو گئی ہے۔ پہلے آدمی اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کی انجام دہی کے لئے دس جگہ جا سکتا تھا، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اب مہنگا پٹرول بہت ضروری کام کے علاوہ کہیں بھی جانے کی ہمت نہیں دیتا۔اس شدید مہنگائی کے دور میں جہاں اور جیسے بھی کچھ بچت ہو جائے اسے غنیمت جاننا چائیے۔ مارکیٹیں آج کل بڑی تیزی دکھا رہی ہیں۔ ان کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔سٹاک مارکیٹ روز ہزار پوائنٹ کا اضافہ دکھا رہی ہے۔ انہیں مبارک کہ جن کے پاس آج کے حالات میں بھی خوب پیسے ہیں اورجو سٹاک سے کھیلتے ہیںاور اپنی بھری ہوئی جیبوں کو مزید بھرنے میں مگن ہیں۔ اپنی تو دوڑ سبزی مارکیٹ تک ہی ہوتی ہے۔ وہاں بھی کمال اضافہ دیکھنے میںآرہا ہے۔ آلو مارکیٹ کا ریٹ ایک ہفتے میں دو سے تین سو تک اوپر گیا ہے۔ پیاز جو ہر پکوان کی ضرورت ہے، اس کی قیمت میں بھی دو سو روپے اضافہ ہوا ہے۔ٹماٹرایک مدت سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہی چل رہا ہے۔ پہلے بہت سی سبزیاںپچیس تیس روپے سے لے کر پچاس تک مل جاتی تھیں۔ اب ڈیڑھ یا دو سو کی بات کریں۔بینگن جو کبھی بیچارہ ہوتا تھا اب بہت قابل عزت ہو گیا ہے اس کا ریٹ بھی اب سو روپے کے قریب ہے۔ میرا ہفتے بھر کی سبزی کا بجٹ پہلے بارہ تیرہ سو روپے ہوتا تھا، اب ہفتے میں پینتس سو (3500/-) سبزی کی نظر ہو جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کیا کھائیں۔ کچھ دالیں بھی پانچ سو روپے کلو تک پہنچ گئی ہیں۔ میرے بچپن میں مزدور لوگ جب تنور سے دو روٹیاں کھانے کے لئے لیتے تو تنور والی ماسی حرمتے انہیں دال کی پلیٹ مفت دے دیتی تھی۔لوگ دال کو بڑی حقیر ڈش جانتے تھے، مگر اب یہ زیادہ ہی معزز ہو گئی ہے۔پہلے غریب اس پر توجہ نہیں دیتے تھے اب یہ غریبوں کو گھاس نہیں ڈالتی۔گھی مہنگا، چینی مہنگی، کیا سستا ہے صرف انسان۔ اس کی تو کچھ قیمت ہی نہیں رہی۔سرمایہ نام کی کوئی چیز اس کے پاس نہیں، اگر کچھ ہے تو وہ آہیں ہیں ، سسکیاں ہیں، مجبوریاں ہیں۔ پریشانیاں ہیں،مگر خرچ کرنے کو کچھ نہیں۔سٹاک مارکیٹ امیروں کی مارکیٹ ہے ، وہ اوپر جاتی ہے تو امیر لوگ جن کے پاس پہلے ہی کافی پیسے ہوتے ہیں، ان کی جیبیں مزید بھاری ہو جاتی ہیں۔حکومت اس کے بڑھنے کو اپنی کارکردگی جان کر خوش ہوتی ہے۔ سبزی مارکیٹ غریب کی مارکیٹ ہے ،اس ماکیٹ کے ریٹ نیچے جائیں تو غریب خوش ہوتا ہے مگر جب یہ مارکیٹ اوپر جاتی ہے تو غریب کی جیب میں جو معمولی رقم ہوتی ہے وہ بھی اجڑ جاتی ہے اور تنگ آ کر غریب خود بھی اوپر جانے کی سوچنے لگتا ہے۔وہ خوشی کیسے منائے، کیا کرے، کیا کھائے۔سبزی مہنگی، دال مہنگی، گوشت قوت خرید سے باہر۔ حکومت کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مگر حکومتوں کے اپنے سیاسی کھیل ہیں۔ حکومتی اکابرین اگر جوڑ توڑ سے فرصت پاہیں تو عام آدمی کا سوچیں۔ابھی تو ان کی سوچ ایک خاص دائرے سے باہر نکلتی نظر نہیں آتی ۔وہ ایک مخصوص گروپ کو اس کی بڑھک بازی کے حوالے الیکشن جتوانے کے خواب دیکھنے میں مست ہیں۔ ڈیفنس لاہور کے علاقے میں ایک نابالغ ڈرائیور نے جان بوجھ کر ایک گاڑی کو ٹکر مار کراس گاڑی کو تباہ اور چھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ ملزم ٹی وی پر آ کر اپنی صفائیاں دے رہا ہے۔پولیس کے پاس گرفتار ہونے کے باوجود کسی ملزم کو اتنی چھوٹ۔لگتا ہے ملزم کا باپ کوئی بڑا آدمی یا روپے پیسے کے اعتبار سے بہت تگڑا ہے ۔پولیس جانے کیوں نابالغ ڈرائیوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی۔ بلکہ جب کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو ایسے مجرموں کو تحفظ بھی دینے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ایسے بچے جواس عمر میں گاڑیاں لئے پھرتے ہیں یقیناً مالدار اور با اثر لوگوں کے بیٹے ہوتے ہیںجو قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ چھوٹی عمر کے بچے گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ،کسی بھی خوف سے بے نیاز، اندھا دھند چلاتے اور ان کے ماں باپ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔بہتر تو یہ ہے کہ ایسے حادثے کی صورت میں وہ ماں باپ جو بچوں کو گاڑی دیتے ہیں، انہیں بھی گرفتار کرکے مقدمے میں شامل کیا جائے ۔ میں رائے ونڈ روڈ کی ایک سکیم میں رہتا ہوں ۔ یہاں سارے بڑے گھر ہیں اور ہر گھر میں دو چار نوکر موجود ہیں۔ ان سبھی نوکروں کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں ۔ یہ موٹر سائیکلیںوہ خود تو کم چلاتے ہیں مگر ان ملازمین کے نابالغ بیٹے اور بیٹیاںسارا دن سکیم میں بھگا رہے ہوتے ہیں۔لڑکیاں موٹر سائیکلیں کم چلاتی ہیں مگر ایک دو چلانا شروع کر دیں تو سارے ہی یہ کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں بچیاں بھی زبردست ڈرائیور ہیں۔ انہیں کون روکے ۔ جس کو روکو اس سے خوامخواہ کی دشمنی سمیت لو۔ پولیس کی گاڑی پاس سے گزرے بھی تو کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ سکیم کی سیکیورٹی انہیں روکنے میں ناکام ہے۔ شاید عام پولیس کو ٹریفک کے معاملات میں دخل دینے کا اختیار حاصل نہیں۔ حکومت کو چائیے کہ نابالغ ڈرائیوروں کے معاملے میں عام پولیس کو کارروائی کا مکمل اختیار دے اور اس ڈرائیونگ کے نتیجے میں نا بالغ ڈرائیور اکیلے کو ہی نہیں اس کے والدین کے خلاف بھی بھرپور کاروائی کرے تبھی اس طرح کے سانحات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔