گزشتہ روز،یکم محرم الحرام 1445ھ ،نئے اسلامی سال کا آغاز،خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیّد نا عمر فاروق ؓ کا یوم شہادت،جن کے بارے میں ایک مستشرق نے کہا تھا کہ اگر اسلام میں عمر ؓ نہ ہوتے، تو دنیا میں اسلام اس قدر تیزی سے نہ پھیلتا،اور اگر اسلام میں ایک عمر ؓ اور ہوتے تو روئے زمین پر اسلام کے علاوہ اور کوئی دین اور مذہب نہ ہوتا ۔ عمر فاروق ؓ---ازحد حقیقت پسند اور عمل جُو شخصیت ، جن کی عبقریت اورـ"Geniusness"نے صرف اسلامی دنیا ہی کو نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ کو متاثر کیا ۔ حسبِ روایت حکومت پنجاب کے ایما ٔ پر،اوقاف و مذہبی امور کی طرف سے،ایوان ِ اوقاف میں ایک وقیع علمی سیمینار منعقد ہوا، جس میں تمام مکاتبِ فکر کی معتبر علمی شخصیات نے از حد موثر اوربلیغ پیرائے میں آپؓ کے طرزِ زیست اور اسلوب ِ حیات سے روشنی اور راہنمائی کے دَروَا کیے ۔ ان سکالرز میں مفتی محمد رمضان سیالوی ، مفتی محمد اسحاق ساقی الازہری ،علامہ محمد شفیق پسروری علامہ محمد سجاد حیدر جواد نقوی بطور خاص قابلِ ذکر ہیں، یہ تذکرہ اس لیے کہ تمام مسالک کے نمائندہ ، علماء کی موجودگی رجسٹرڈ ہوجائے وگرنہ یہ پوری کانفرنس،اس کے شرکائ،سامعین بلکہ سارا اجتماع بھی علماء و خطباء اور دینی شخصیات پر مشتمل تھا اور مجھے یہ بھی وثوق ہے کہ آپؓ کے تذکار کے حوالے سے ایسی جامع تقریب، شاید کسی اور فورم پر منعقد نہ ہو ہوسکی ہو اور کسی شخصیت کا دن منانے کا تقاضہ بھی یہی ہے ، ہمارے ہاں ایک رسم اور مطالبہ یہ بھی چل نکلا ہے کہ کسی ہستی کو خراجِ تحسین صرف اسی صورت پیش ہوسکتا ہے کہ اُن کے اس خاص دن کی مناسبت سے سرکاری اداروں اور دفاتر میں چھُٹی کا اعلان ہو۔ بھلے سارا پرائیویٹ سیکٹر اور پوری سوسائٹی اس سے بے خبر اور لا تعلق،اپنے روز مرہ امور میں منہمک رہے۔بس کاروبا رِحکومت اور نظمِ سلطنت سرکاری سطح پر معطل و موخر ہو ۔کسی ایک مقتدر ہستی کے یوم پر چھُٹی کے اہتمام سے،کتنی دیگر ہستیوں کے ایّام پر تعطیل کا استحقاق معتبر ہوجاتا ہے ۔ اگر یکم محرم کو چھُٹی ہو،تو پھر 22 جمادی الثانی کو خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے یومِ وصال پہ چھٹی کیوں نہ ہو ۔ 18 ذوالحجہ کو حضرت عثمانِ غنی ؓ اور21 رمضان کو حضرت علی المر تضیٰ ؓ کے یوم شہادت کی تعطیل بھی لازم ۔ لیکن کیا یہ تعطیل ان بر گزیدہ اور جلیل القدر ہستیوں کے افکار اور پیغام کی ترویج و ترسیل اور تشہیر و تبلیغ میں ممدہوسکتی ہے ---؟یا اس سے محض استراحت و آرام کوشی اور سیر و تفرویح کی بہم رسانی کا اہتمام و انتظام ہی مقصود۔ خلیفۃ المسلمین، امیر المومنین حضرت عمر ِ فاروقؓ اِس قدر پر یکٹیکل اپروچ اور مبسوط لائحہ عمل کی حامل شخصیت تھے کہ فرماتے کہ منصوبہ بندی سو سال کی کرتا ہوں اور عمل اس قدر مستعد اور منضبط ہو کر کہ جیسے زندگی کا آخری روز۔ دین اور دنیا میں ایسا توازن کہ اگر دن کے اوقات یعنی چاشت کے بعد کسی کو مسجد میں دیکھ لیتے تو ہنٹر نکال لیتے اور فرماتے جائو اللہ کی زمین پر گھومو اور اپنے اہل و عیال کے لیے رزق تلاش کر و۔ فرماتے خدا، انسان کو براہ راست رزق نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے اس نے تگ و دو اور محنت کو لازم اور انسان کو انسان کا وسیلہ بنایا ہوا ہے۔آپؓ کا یہ قول منشائے خداوندی کی عمدہ تفسیر و تعبیر ہے ۔’’اے لوگو!تم میں سے کوئی شخص رزق کی طلب و جستجو سے فارغ ہو کر نہ بیٹھ جائے اور یہ کہتا رہے کہ اللہ مجھے رز ق دے،یاد رکھو !آسمان سے ہُن یعنی رزق نہیں برستا ، اللہ ایک انسان کو دوسرے انسان کے ہاتھوں رزق پہنچا تا ہے‘‘ فرماتے متوکل یعنی تو کل کرنے والا وہ ہے جو محنت سے زمین کو ہموار کر کے اس میں دانا ڈالتا ہے اور پھر خدا کے قانون اور اصول کے مطابق اس پر بھروسہ کرتا ہے ۔ فرمایا جنت محض لا الہ کہہ دینے سے نہیں مل سکتی بلکہ جنت عمل سے ملتی ہے ۔ فرمایا کسی قسم سے مقابلے کے وقت یہ نہ دیکھو کہ اس کی اخلاقی خرابیاں ، تمہاری خرابیوں سے زیادہ ہیں ، دیکھو کہ تمہاری اخلاقی خوبیاں اس سے کتنی زیادہ ہیں ، اصل میں کامیابی کا راز یہ ہے ۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ جب حاکم بگڑ جاتا ہے تو رعایا بھی بگڑ جاتی ہے ۔ سب سے بد بخت حاکم وہ ہے جس کے سبب رعایا بگڑ جائے۔ مومن کسی کو دھوکا دیتا ہے اور نہ دھوکا کھا تا ہے ۔ خلافت کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلافت کے معنی یہ ہیں کہ خدا کو حساب دیتے وقت بتایا جاسکے کہ کہاں سے لیا تھا اور کسے دیا تھا اور اگر یہ جواب اطمینان بخش ہے تو وہ خلافت ہے ورنہ ملوکیت۔ جب تک سربراہ مملکت پر وہ کچھ نہ گزرے جو رعا یا پر گزری ہے ، اسے ان کی تکالیف کا احساس کیسے ہوسکتا ہے ۔ مزید فرمایا کہ حکومت کے منصب کے لیے ایسا شخص سب سے زیادہ موزوں ہے کہ جب وہ اس منصب پر فائز نہ ہو تو قوم کا سردار نظر آئے اور جب اس پر فائز ہوجائے تو انہی میں ایک فرد معلوم ہو ۔ طاقتور خائن اور کمزور دیانتدار دونوں حکومت کے لیے نقصان دہ ہیں ، ایک گورنر کو مراسلہ لکھا کہ اپنی رعایا کے لیے تم ایسے بن جائو کہ اگر تم رعیّت ہوتے تو چاہتے کہ ہمارا امیر ایسا ہونا چاہیے، فرمایا وہی حکومت درست رہ سکتی ہے جس میں نرمی ہو ، لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اور سختی ہو لیکن استبداد کی بناء پر نہیں ۔ ایک گورنر کو ہدایت جاری فرمائی کہ ایسا بن کے رہ کہ امن پسند تجھ سے بے خوف رہیں اور بدمعاش خوفزدہ ۔ جو شخص مسلمانوں کا امیر ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ غلاموں کی طرح مخلص اور امین ہو ۔ فرمایا چھوٹا موٹا کھائو ، گاڑھا گزی پہنو، عجمیوں کا سا تکلف نہ کر و۔ فرمایا: جس میں تکبر دیکھو ، سمجھ لو احساسِ کمتر ی کا شکار ہے ۔ آپؓ ایک دعوت پر تشریف لے گئے ، دیکھا کہ اہل ِخانہ کے ملازم ، دسترخوان پر موجود نہیں، دریافت کرنے پر صاحبِ خانہ نے کہا کہ ہم پہلے کھا لیتے ہیں وہ بعد میں کھا لیں گے ، اس پر آپؓ برافروختہ ہوئے اور فرمایا ـ:۔ خدایا!اس قوم کا کیا حشر ہوگا جو اپنے آپ کو اپنے ملازموں پر ترجیح دیتی ہے، پھر آپؓ نے ان ملازموں کو بلایا ور پہلے انہیں کھلایا اور بعد میں خود کھایا ۔ فرمایا جس حاکم کے محل کے دروازے عوام کے لیے بندہو جائیں ، وہ قصرِ سعد نہیں قصرِ فساد ہے ۔ فرمایا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اہل و اعیال میں بچے کی طرح رہے ، لیکن جب ان کی کوئی ضرورت اور مسئلہ سامنے آجائے تو مرد اور کنبے کا سربراہ بن جائے ۔ فرمایا امیر المومنین اس وقت تک گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکتا، جب تک اسے یقین نہ ہوجائے کہ رعایا میں سے ہر ایک کو ایسی روٹی میسر ہے ۔ رعایا پر حکومت کے واجبات کی ادائیگی اس وقت لازم ہے جب وہ حکومت کے رفاہ ِ عامہ سے مستفید ہو ، لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دو ، مُٹھّی مُٹھّی دینے سے ان کے اخلاق درست نہیں رہ سکتے ۔ فرمایا اگر عمر نے کسی پر ظلم کیا اور اس کی فریاد آسمان پر پہنچی تو اس کی ساری نیکیاں صاحبِ عرش کے نزدیک بے وزن ہوجائیں گی ۔ فرمایا حکومت کی اصلا ح تین چیزوں سے ہوسکتی ہے ، امانت یعنی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ، قوت کے ساتھ گرفت اور قرآن کے مطابق فیصلے، دولت کی اصلاح دو چیزوں سے ہوسکتی ہے ۔ حق کے ساتھ لیا اورباطل میں صَرف ہونے سے بچایا ۔