اس میں کوئی شک نہیں کی عمران خان صاحب نے 16 اکتوبر کو ہو نے والے ضمنی الیکشن میں ایک بار پھر اپنی عوامی مقبولیت کو انتخابی نتائج سے ثابت کر دیا ہے۔وہ قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر امیدوار تھے چھ پر وہ کامیاب رہے ۔کراچی کی ایک نشست پر وہ پپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ سے شکست سے دوچار ہوئے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی کے لئے بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں بھی وہ پندرہ پر کامیابی سمیٹ چکے ہیں۔اس وقت پاکستانی سیاست میں عمران خاں اپنی مقبولیت کے بام عروج پر ہیں، ان کے چاہنے والے ان کی سیاست سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ان کے شخصی سحر میں بھی گرفتار ہیں، جس کا مظاہرہ اپریل میں ان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ملک کے تمام ہی شہروں میں ہوا۔اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کوایک غیر ملکی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے جو بیانیہ تشکیل دیا اور جسے انہوں نے اور ان کی میڈیا ٹیم نے ابلاغ کے ہر پلیٹ فارم پر پوری قوت کے ساتھ پیش کیا اور اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب بھی رہے۔اپنی حکومت کی کارکردگی کو انہوں نے بڑی چابک دستی اور پروپیگنڈہ کے ہنر کے زور پر پس پشت رکھتے ہوئے صرف اس بات پر ساری توجہ مرکوز رکھی اور تمام اداروں کو بھی اس بات کے تسلیم کئے جانے کے لئے مجبور رکھا کہ انہیں بین الاقوامی سازش کے ذریعہ حکومت سے الگ کیا گیا ہے۔انہوں نے احتجاج کے طور پر قومی اسمبلی سے استعفی دے کر دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کردیا اپنے اس مطالبہ کی پذیرائی کے لئے انہوں نے ملک کے طول و عرض میںپچاس سے زائد کامیاب جلسے بھی کئے ۔ اپنی سیاسی مقبولیت اور ان انتخابی کامیابیوں کے تناظر میں ان کے اس مطالبہ میں مزید شدت آگئی ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے وگرنہ وہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرینگے اور پھر فیصلہ سڑکوں پر عوام خود کرینگے۔ ہمارے خیال میں اس موقع پر ، جب کہ وہ انتخابی کامیابی سے سرشار ہیں ، لانگ مارچ کے نتائج اور اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر ایک بار پھر سنجیدگی سے غور کر لیا جائے۔مجوزہ لانگ مارچ کے ہونے اور حکومت کی جانب سے اسے روکنے کے ضمن میں جو بیانات ہر دو جانب سے سامنے آئے ہیں وہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔ تصادم،محاذ آرائی اور طاقت کے استعمال سے مطلوبہ اور مثبت نتائج کی امید رکھنا کسی بھی فریق کی جانب سے درست نہیں ۔قومی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے اس کا تقاضہ ہے ملک میں کسی بھی طرح کا عدم استحکام نہ ہو ۔ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں پاکستان کا ریاستی تشخص اور تاثر ہمیشہ ہی گہرے شبہات میں ر ہا ہے،اس کی ایٹمی صلاحیت کو اور اس کے حفاظتی نظام کو ملک میں جاری سیاسی کشمکش اورمعاشی و سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر وہ قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔اس صورت حال میں پاکستان کے تمام ہی سیاست دانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر موجود اس ریاستی تاثر کو تبدیل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اس کے لئے ہمارے خیال میں ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا شرط اول ہے ۔ سیاست دانوں کو ریاست کی بقا اور اس کے بہتر مستقبل کے لئے افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا ہو گا، ریاست کی بقا میں ہی ان کی سیاست کی بقا ہے ۔پہلے ریاست اور پھر سیاست۔اس کلیہ کو جو سمجھ لے اور اس پر صدق دل سے عمل پیرا بھی ہو ۔ تو وہی اس ملک کا سچا خیر خواہ اورہمدرد ہے۔ایک مقبول سیاسی شخصیت کے طور پر کوئی فیصلہ کرتے ہوئے عمران خاں کی ذمہ داری بھی اسی طرح زیادہ ہے انہیں محض اپنی وقتی سیاسی کامیابی کے ساتھ ساتھ ملک کے بہتر مفاد اور مستقبل کا بھی ادراک ہو نا چاہئے۔ عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کوتمام تر انتخابی کامیابیوں کے باوجود اس مرحلے پر ایک بار پھر اس بات پر غور کرنا بہتر ہوگا کہ ان کے مجوزہ لانگ ماچ کے پروگرام سے ہٹ کر بھی کیا اور کوئی لائحہ عمل ان کی اور ملک کی سیاست کے لئے بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ سے ہٹ کر بھی ایک بہتر آپشن اب بھی خان صاحب کے پاس موجود ہے اور جسے اختیار کرتے ہوئے وہ زیادہ بہتر انداز سے اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوری سیاست میں پارلیمنٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہو تی ہے تمام قومی مسائل،معاملات اور تنازعات کو حل کر نے کے لئے پارلیمنٹ ہی سب سے بہتر اور موثر فورم ہے اور ہونا بھی چاہیئے۔عمران خاں صاحب نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے لئے جو بھی بیانیہ عوام کے سامنے پیش کیا، اس کی حقیقت سے قطع نظر،اسے عوام نے قبول کیا ۔اس پذیرائی اور قبولیت عامہ کو سڑکوں کے بجائے پارلیمنٹ میں استعمال کیا جانا چاہیئے، جس طرح کسی جنگ کا فیصلہ میدان جنگ میں کسی فریق کی غالب پوزیشن کے حصول کے بعد مذاکرات کی میز پر ہی ہو تا ہے بالکل اسی طرح خان صاحب نے انتخابی کامیابیوں سے میدان جنگ میں غالب پوزیشن حاصل کر لی ہے اب انہیں پارلیمنٹ کے فورم پر آکر اپنے مطالبات کے لئے اپنی عوامی پذیرائی کی قوت کو استعمال کرنا چاہیئے ۔یہی بہتر آپشن ہے ۔قومی اسمبلی سے دئیے گئے استعفوں کو واپس لیتے ہوئے وہ اسمبلی میں آکر اپنی سیاسی قوت کا اظہار کریں ۔استعفوں کے واپس لئے جانے کا یہ فیصلہ ان کے لئے کسی سبکی کا باعث بھی نہیں ہو گا کہ فیصلوں سے مراجعت کی ان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور جسے وہ مستحسن بھی سمجھتے ہیں۔ (جاری ہے)