پنجاب اسمبلی کے انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 14مئی کو ہونے جا رہے ہیں‘ اگر تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے مابین باہمی سمجھوتے کے لئے دی گئی سپریم کورٹ کی مہلت کے مطابق پورے ملک میں ایک دن ساری اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے معاملات طے نہیں پا جاتے تو ایسی صورت میں پنجاب اسمبلی کے لئے ووٹنگ کے لئے تین ہفتے باقی ہیں‘ پارٹی نشانات الاٹ کرنے کے لئے الیکشن کمیشن نے 20اپریل رات بارہ بجے تک وقت مقرر کر رکھا تھا‘مقررہ مدت تک تحریک انصاف کے سوا کوئی سیاسی جماعت اپنے امیدواروں کا فیصلہ کر سکی نہ ہی پارٹی نشان کے لئے ٹکٹ جمع کروائے گئے ہیں۔اس وقت وطن عزیز میں صرف دو ہی سیاسی گروپ متحرک ہیں۔1۔تحریک انصاف جو عمران خاں کی قیادت میں سب سے بڑی سیاسی طاقت مانی جا رہی ہے۔2۔ پی ڈی ایم‘ جو پچھلی پانچ چھ دہائیوں سے حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد پاکستان میں حکومت اور اقتدار تقریباً نصف مدت کے لئے پاکستان کی بری فوج کے سربراہوں کے ہاتھ رہا ہے بقیہ آدھی مدت دو سیاسی پارٹیوں میں گھمایا گیا۔یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ باقی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں انہی تین مقتدر قوتوں خوشہ چین رہی ہیں۔ عمران خاں کی قیادت میں نئی نویلی تحریک انصاف نے ان تینوں برسر اقتدار رہنے والے گروپوں کو چیلنج کیا بالآخر 2018ء میں تحریک انصاف ان تینوں کو پیچھے چھوڑ کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ماضی کے حکمران نئے سیاسی کردار کو قبول کرنے پر دل سے آمادہ نہیں ہوئے اور انہوں نے ایک غیر اعلانیہ غیر مقدس اتحاد بنا کر بعض بین الاقوامی کھلاڑیوں کی حمایت اور تعاون سے عمران خاں کو حکومت سے الگ کر دیا پچھلے ایک سال سے اسٹیبلشمنٹ ‘ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اور ان کے خوشہ چین برسر اقتدار ہیں‘ کہنے‘ دیکھنے اور سننے میں میاں شہباز شریف اس غیر مقدس اتحاد کے سربراہ ہیں لیکن نام نہاد سربراہ کی حیثیت ایک ’’فرنٹ مین‘‘ کی ہے دکھائی دینے کے لئے ایک سیاسی چہرہ مگر اس قوت طاقت فیصلہ اور اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ عملاً دو سیاسی اتحاد ایک دوسرے کے مقابلے کھڑے ہیں‘ایک طرف مسلم لیگ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ ان کے مقابلے میں عمران خاں‘ پاکستان کے عوام جی ہاں عمران خاں کے ساتھ عمران کا اتحاد کوئی خفیہ یا غیر اعلانیہ نہیں بلکہ اس اتحاد کو ہر کوئی اپنی روز مرہ کی زندگی میں کھلی آنکھوں دیکھ سکتا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی اندازہ کار (سروے) یہ بتا رہے ہیں کہ عمران خاں اتحاد کو انتخابات میں 80 فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا اتحاد ریاست اور حکومت کے وسائل‘ قوت و جبروت کے باوجود 20فیصد ووٹرز کو بمشکل اپنی طرف متوجہ کر پا رہا ہے حکومتی اتحاد کے پاس انتخابات کے میدانوں میں اتارنے کے لئے کھلاڑی دستیاب ہیں۔سب سے قابل رحم حالت اسٹیبلشمنٹ کی ہو رہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی عملی حمایت کا جادو تو بڑے بڑوں کو بت بنا دیتا کبھی اچھے بھلے سیاستدانوں کو مکھی بنا کر کسی دیوار پر بے حس و حرکت بٹھا دیا کرتا تھا‘ اس کی عملی حمایت تو دور کی بات محض ایک افواہ یا تاثر کہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر کرم فلاں پارٹی یا سیاسی شخصیت کی طرف اٹھنے والی ہے، اس کی کامیابی کی گارنٹی بن جایا کرتی تھی اس کی اپنی حالت مسلم لیگ ق سے بھی بدتر ہو رہی ہے۔ حکمران اتحاد کی حالت پتلی ہے، انتخابات کے میدان سے بھاگ نکلنا چاہ رہے، بھاگنے کی راہ نہیں، میدان میں اترنے کا یارا نہیں، کریں تو کریں کیا؟ سپریم کورٹ نے اپنی رٹ منوانے اور انصاف قائم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے‘ پاکستانی رائے عامہ کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر کھڑی ہے جن کے دم قدم سے بہاریں تھیں۔ان کے اپنے چہروں پر مردنی چھائی ہے ان کو کیا دلاسا دیں گے، انہیں خود اپنے قدموں پر کھڑے رہنا مشکل ہو رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم سیاسی اتحاد کی بنیاد خوف پر رکھی گئی ہے ،خوف ایک غیر حقیقی اور ماورائی خطرے کا خوف سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ایک خطرہ تخلیق کیا، عمران خاں کے طویل اور جابرانہ اقتدار کا خطرہ پہلے سے ڈرے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں کو اکٹھا کر کے انہیں مزید ڈرایا گیا‘ یوں خوف کی بنیاد پر ایک سیاسی اتحاد وجود میں آ گیا۔جنرل باجوہ نے جرائم میں ملوث اور عدالتوں کو مطلوب سیاستدانوں کو سیاست بدر ہونے اور دولت و ثروت کے چھن جانے کے خطرے سے ڈرایا کہ عمران خاں نومبر میں اپنی پسند کا فوجی سربراہ بنانے جا رہا ہے۔ فوجی کی مکمل تائید حاصل ہونے کے بعد وہ فوری طور الیکشن میں جانے والا ہے‘ منصوبے کے مطابق وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر کے احتساب کی عدالتوں میں اضافہ اور جلد فیصلوں کے لئے قانون سازی کرنے والا ہے ہم سب اپنی دولت اور آزادی سے محروم ہونے والے ہیں، دوسری طرف اس نے عمران خاں کو روس کے دورے اور روسی صدر سے تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اسے روس کے دورے پر روانہ کر کے امریکہ میں زر خرید لابی کے ذریعے امریکہ کو باور کروایا گیا کہ عمران خاں چین کے بعد روس کا اتحادی بننے جا رہا ہے‘ پاکستان‘ چین روس ‘ ایران‘ ترکی ‘ سعودی عرب کا اتحاد عمران خاں کا اصل مشن ہے، ایسا کرنے سے امریکہ کے طویل مدت مفادات خطرے میں پڑنے والے ہیں، اب عمران خاں سے نجات کے لئے میری مدد کریں تاکہ ہم پارلیمنٹ کے اندر سے عمران خاں کو شکست دے سکیں۔اس کے لئے مالی مدد اور سیاسی تعاون طلب کیا گیا، یوں ڈری گھبرائی ‘ خوفزدہ قوتوں کا اتحاد وجود میں آ گیا اور عمران خاں کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کے لئے ریاست کی پوری مشینری بشمول عدلیہ کے اس مشن میں استعمال کیا گیا‘ عمران خاں کی حکومت 9اپریل رمضان المبارک کے مبارک دنوں میں ختم کر کے باجوہ اور کمپنی اطمینان کی نیند سوئے تھے کہ اگلے دن 10اپریل 2022ء پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر قصبے دیہات میں لوگ عمران خاں کی حمایت میں نکل آئے، دنیا بھر کے 100سے زیادہ بڑے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے انسانی تاریخ کا یہ منفرد اور اولین واقعہ ہے کہ کسی جمہوری ملک میں سیاسی تبدیلی کے نتیجے میں اس قدر جلدی اور غیر معمولی ردعمل سامنے آیا ہو۔ فرضی خطرے نے حقیقی شکل اختیار کر لی، مزاحمت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی، بڑھتی جا رہی ہے۔ لالچ‘ تشدد‘ ظلم‘ جبر ‘ قیدو بند اور قتل و غارت کوئی حربہ کام نہیں آیا، عمران کو قتل کرنے کی متعدد کوششیں ناکام ہوئیں ایک خطرناک حملے میں زخمی ہو کر بھی وہ سلامت نکل آیا۔ان کے منصوبے ناکام حکمت عملی ناکارہ اور حربے ریت کی دیوار ثابت ہوئے سابق جنرل باجوہ نے ایک فرضی خطرے کا ہیولا دکھا کر اتحاد بنایا تھا سیاست کے جوکروں کا اتحاد کٹھ پتلیوں کا تماشہ اسٹیبلشمنٹ نے جرائم پیشہ مافیاز کا اتحاد قائم کر کے جس عمران خاں کو راہ سے ہٹایا تھا اب سو گنا قدرقامت کے ساتھ حقیقی خطرہ بن کر سرراہ ہے۔اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں کو ڈرایا تھا کہ ان کے مقاصد کی تکمیل‘اب ڈرانے والوں کے ڈرنے کی باری ہے۔ کٹھ پتلیوں کے اتحاد نے جو کل تک ڈرے سہمے تھے، اس خوف کو اپنے آقائوں تک بڑھا دیا ہے۔ڈرانے والوں کو باور آیا ہے کہ عمران خاں روکے رک نہیں سکے گان کٹھ پتلیاں بھاگ نکلنے کو تیار ہیں۔فرنٹ مین دور دراز پناہ گاہوں میں چھپ جائیں گے، تب ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارا کیا بنے گا؟ خوفزدہ ہو کر خفیہ پناہ گاہوں سے نکل کر عدالت عظمیٰ کی پناہ گاہ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے لیکن عدل کے ایوانوں نے یہ ایوان عدل کے لئے سجائے ہیں نہ کہ جرائم کی پناہ گاہ کے لئے۔ خوف نے جو اتحاد بنایا تھا خوف کے ہاتھوں وہ ٹوٹنے لگا ہے ہر کوشش ہر منصوبہ بے کار پی ڈی ایم اتحاد کے پاس آخری چارہ کار کے طور پر صرف یہی رہ گیا ہے کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے نکل بھاگیں، آخری اقتدار کے آخری دن انہیں بھاگ نکلنے کے وقت اور سرکاری جہاز مہیا کر دیں گے‘ لوٹ کی دولت باقی زندگی کی گزر بسر کے لئے کافی ہے، اپنے کئے کو اسٹیبلشمنٹ خود بھگتے گی۔ بائیکاٹ‘ انتخابات کا بائیکاٹ‘ سیاہ چہروں کے لئے پردہ بن سکتا ہے اور بھرم بھی!