یہ ایک پرانی یاد ہے،یہ پرانی بات ہے لیکن ایک دائمی زخم کی مانند ہے،جس کو میں کریدتا رہتا ہوں اور یہ زخم کبھی بھرتا نہیں،مندمل نہیں ہوتا۔ایک عشرے سے زائد کی بات ہوگی۔ میری نظریں حرم کعبہ پر جم کر رہ گئیں۔ہیبت اور جلال میرے رگ و ریشے میں اترنے لگا۔ صدیوں سے انسانوں کی توجہ کا مرکز مسجد الحرام‘ میری آنکھوں سے دل میں اتر رہی تھی ۔چند روز قبل میں یہاں آیا تھا ۔ اﷲ کی توفیق سے پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکا ہوں ۔ جب بھی آتا ہوں‘ جانے کو جی نہیں کرتا ۔ اب کی بار جو آخری طواف کوگیا، تو رقت خون بن کر میرے بدن میں دوڑنے لگی۔ یہ احساس مجھے رلا رہا تھا کہ چند لمحوں بعد یہاں سے چلا جائوں گا۔میرے ارد گرد انسان ہی انسان تھے لیکن میں جیسے بالکل تنہا ۔ایک لمحے کے لیے میںنے اپنے دائیں بائیں دیکھا ‘ لوگ شمع حرم کے گرد پروانوں کی طرح منڈلا رہے تھے ۔ ہر نسل‘ہر رنگ اور ہر ملک کے لوگ ’’ لبیک لبیک ‘‘ پکار رہے تھے۔التجائیں کر رہے تھے‘ ہر کوئی اپنے ذوق میں مگن تھا ۔ کسی کو کسی کی کچھ خبر نہ تھی ۔یہ رمضان المبار ک کی مقدس ساعتوں کا ذکرہے۔میں اس روز جدہ سے آخری طواف کے لیے مکہ مکرمہ گیا تھا‘ لیکن انسانوں کے ہجوم میں جیسے پھنس کر رہ گیا ۔ ابھی طواف کے چار چکر پورے کیے تھے کہ باب صفا کے قریب اچانک ہلچل پید اہوئی ۔کچھ آوازیں بلند ہوئیں‘آب زم زم اور باب عمر ؓ کے اس پار خواتین کی چیخ و پکار… اچانک کسی نے نعرئہ تکبیر بلند کیا…پھر … چاروں طرف سے آوازیں ابھرنے لگیں ۔ ’’اﷲ اکبر ‘ اﷲ اکبر‘‘ حرم کے برآمدے ‘ صحن اور مطاف نعروں سے گونجنے لگے ۔ حرم کعبہ کے گرد بڑھتے قدم رک گئے ‘جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہو۔ جیسے سیلاب کے آگے بند باندھ دیا گیا ہو۔کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ کیا ہوا …؟ یہ نعرے کیوں بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں ؟ حرم میں کبھی ایسا ماجرا نہیں ہوا تھا ۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی ۔ حرم کے محافظ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ لوگوں کے منہ پر ہاتھ رکھ رہے تھے اور پکار رہے تھے : ’’ اتقی اﷲ یا شیخ …ا تقی اﷲ ‘‘ ( اﷲ سے ڈرو ‘ اﷲ سے ڈرو)… لیکن وہاں جذبے نعروںمیں ڈھل گئے تھے اور نعرے طوفان میں ۔ لاکھوں لوگوں کا ہجوم اور ہجوم کے نعرے … ہمیں اپنے طواف کی فکر کھائے جا رہی تھی ۔ جس کے تین چکر ابھی باقی تھے اور پھر افطاری میں بھی زیادہ وقت نہیں تھا ۔’’ آخر ہوا کیا ؟‘‘میں نے اپنے قریب سے بھاگتے ایک ’’ دیسی ‘‘ آدمی سے پوچھا۔’’ اسرائیلی کرنل ساتھیوں سمیت مارا گیا ۔‘‘ اس نے چیخ کر میرے کان میں کہا اور پھر بلند ہوتے نعروںمیں ہماری آواز بھی شامل ہوگئی۔ ’’ اﷲ کا شکر ہے ‘ ایک ظالم انجام کو پہنچا ۔‘‘ میںنے اپنے پہلو میںکھڑے اپنے ساتھی کے کان میں کہا جو ابھی تک اس سارے منظر سے بالکل غیر جانب دار کھڑا تھا ۔ پھر اس کی آواز بھی ’’ اﷲ اکبر وﷲ الحمد‘‘ میں شامل ہو گئی۔معاً مجھے یوں لگا ‘ جیسے میرے کان میں کوئی چیخ رہا ہے ۔ میںنے پلٹ کر دیکھا ۔ وہ ایک چھ سات سال کا بچہ تھا جو اپنے باپ کے کندھے پر سوار تھا ۔ اس کے دونوں ہاتھ فضا میں بلند تھے ۔ اس کا احرام کندھے سے ڈھلک گیا تھا ‘ جس کے ایک کونے پر فلسطین کا جھنڈا چمک رہا تھا اور وہ پکار رہا تھا: ’’خیبر خیبر یا یہود !‘‘( اے یہودیو! خیبر کو یاد کرو )مجمع جواب دے رہا تھا : ’’جیش محمد ﷺ سوف یعود ‘‘( محمد ﷺ کی فوج پلٹ کر آ رہی ہے ) بچے نے ایک مرتبہ پھر نعرہ لگایا اور کعبے کی جانب اپنے ہاتھ بلند کر کے بولا ۔۔۔ فانصرنا علی القوم الکافرین یا رب العالمین یا رب العالمین۔۔۔( اے دو جہانوں کے رب ‘ ہمیں کافر قوم پر نصرت عطا کر ) پھر ایک چیخ ابھری ‘ بچہ اور اس کا باپ مجمعے کو چیرتے کعبے کی سمت بڑھ رہے تھے۔ میرے قدم بھی بے اختیا رادھراٹھ گئے ۔ میں اس ہنگامہ خیز صورت حال میں اس بچے کی حرکات دیکھنا چاہتا تھا ۔ حطیم کے پاس پہنچ کر دونوں باپ بیٹا رک گئے ۔ ان کے لبوں پر نعرے تھے‘ دعائیںتھیں ‘کوئی لفظ سمجھ آتا تھا تو صرف فلسطین فلسطین !!۔ حرم کے خدمت گار اس صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے ‘مگر پھر اچانک شور رک گیا ۔ خبر ملی اسرائیل کا وزیر اعظم زندہ ہے۔ کسی نے محض افواہ اڑائی تھی ۔ نعرے تھمنا شروع ہو گئے تھے ۔ ماحول میںٹھہرائو لوٹ آیا تھا ۔ دلوں کی دھڑکنیں معمول پر آ رہی تھیں ‘ چہروںپر اداسی کے سائے چھانے لگے تھے … لیکن میری نظروں کے سامنے وہ باپ بیٹا غلاف کعبہ سے چمٹے ابھی رو رہے تھے ‘ چیخ رہے تھے۔ اچانک بچہ پلٹا ‘ احرام سمیٹا اور دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر کے پکارا : ’’ خیبر خیبر یایہود !!‘‘لیکن اب کے اس کے نعرے کا جواب نہ آیا۔ اس نے حسرت بھری نگاہ سے کعبے کو دیکھا ‘ اس کے گرد طواف کرتے انسانوں کو دیکھا ۔ کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہ تھا ‘ کوئی بھی جواب نہیں دے رہا تھا ۔اس کے نعرے کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا ۔ وہ لاکھوں انسانوں کے درمیان تنہا تھا ۔ حرم کے گرد گھومتی پوری امت میں فلسطین کا تنہا بچہ !! میںنے اس معصوم کو حیرت اور حسرت سے دیکھا ۔ میں بھی اس کے نعرے کا جواب نہ دے سکا ۔ میںنے اپنی کم ہمتی کا ماتم کیا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو موتی بن کر چمک رہے تھے ‘ کوئی جواب نہ پا کر وہ پھر پکارا :القدس لنا و الارض لنا ’’ القدس ہمارا ہے اور زمین بھی ہماری ہے ۔‘‘ دل کا غبار میری آنکھوںمیں امڈ آیا ۔ ایک دھند سے چھائی … میرے اور فلسطینی بچے کے درمیان… اور مسجد الحرام کے درمیان … مجھے کچھ بھی نظر نہ آیا ۔ میںنے شدت کے ساتھ اپنے جذبات کو دبایا ۔ میں اس معصوم کے لیے کیا کر سکتا تھا جو مثل حسینؓ فلسطین کے کربلا میںتنہا کھڑا تھا… جو دو ارب مسلمانوں کے درمیان اکیلا تھا ۔ میںکعبے کی جانب پلٹا ‘ سورج غار حرا کے اس پار ڈوب چکا تھا۔ کل پھر طلوع ہونے کے لیے… میںنے یقین سے سوچا ‘ فلسطین کی سر زمین پر بظاہر اندھیرا ہے ‘ لیکن جب تک اس کے سینے پر اس طرح کے بچے موجود ہیں ‘ وہاں اسرائیل کے ظلم اور امت کی خاموشی کے باوجود صبح طلوع ہونے سے کون روک سکتا ہے ؟