انسانی حقوق کے ممتاز علمبردار خرم پرویز کو نومبر 2021 میں ایک من گھڑت مقدمے میں بھارتی حکام نے سری نگرسے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری پر پوری دنیا میں زبردست احتجاج ہوا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن اور نوم چومسکی جیسے عالمی شہرت یافتہ اسکالرزمسلسل ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ خوش آئندہ بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فراموش نہیں کیا گیا۔گزشتہ ہفتے خرم پرویز کی رہائی کی مہم کو غیر معمولی بوسٹ ملا۔محترمہ مری لاولرجو اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق ہیں نے خرم پرویز کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کیے جانے والے ان کے غیرمعمولی کام کی بدولت ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹنشن نے خرم پرویز کے مقدمہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے 16 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں خرم پرویزکی فوری رہائی کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ انہیں بے گناہ قراردیاگیا۔ یو این کے اس ورکنگ گروپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بھارتی حکام خرم پرویز کے خلاف تمام الزامات واپس لیں اور انہیں ہرجانہ ادا کریں۔ یعنی اس زیادتی کی تلافی کے لیے معاوضہ ادا کریں۔ رپورٹ میں اس امر پر تاسف کا اظہار کیاگیا کہ خرم پرویز کو اپنے وکیل سے ملاقات اور مشاورت کے لیے درکار مناسب وقت نہیں دیاگیا۔ خرم پرویز کی بے لوث خدمات اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر کی جانے والی جرات مندانہ رپورٹنگ نے ان کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی کی ایک غیرمعمولی لہر پیدا کی ہے۔چنانچہ چند ماہ قبل پابند سلاسل ہونے کے باوجود انہیں ’مارٹن اینالز‘ ایوارڈ سے نوازاگیا۔ وہ گزشتہ دودہائیوں سے اپنی سلامتی کو خطرات میں ڈال کر کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات کی ڈاکیومنٹیشن کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک نہیں درجنوں رپورٹیں مرتب کیں۔ ان کی جرات مندانہ لیڈرشپ میں اور ان سے متاثر ہوکر عرفان معراج کی طرح کے درجنوں نوجوانوں نے انسانی حقوق پر کام کیا اور جیلوں کی ہوا کھائی۔ چند سال پہلے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے سیکرٹری ایٹ سے کشمیر پر دوبڑی جامع رپورٹیں جاری ہوئی تھیں۔ ان دونوں رپورٹوں میں خرم پرویز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مرتب کردہ حقائق کوبطور ریفرنس استعمال کیا گیا۔ خرم پرویز کی گرفتاری کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا بلکہ کشمیر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔ بھارتی حکام نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سماجی کارکنوں، سیاسی شخصیات اور صحافیوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے ہیں تاکہ یہ لوگ خوف زدہ ہوکر دبک جائیں اور کوئی بھی سرکار کی زیادتیوں کے خلاف آواز نہ اٹھائے۔ چنانچہ خرم پرویز کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کی پامالیوں پر جس پیمانے پر کام ہو رہا تھا وہ بری طرح متاثر ہوا۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے خرم پرویز مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی ڈاکیومنٹیشن کررہے ہیں۔ وہ حکام کو بے خوفی کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں۔ انہوں نے ہر موقع پر مظلوموں کے حقوق کی وکالت کی۔ 2000 ء میںانہوں نے انسانی حقوق کے ایک اور ممتاز علمبردار پرویز امروزایڈووکیٹ کے اشتراک سے جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے خطے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ پیشہ وارانہ انداز میں مرتب کیا گیا۔ اس تنظیم کی رپورٹوں میں اجتماعی قبروں، جبری گمشدگیوں، ٹارچر، ماورائے عدالت قتل اورجنسی تشدد جیسی انسانی حقوق کی پامالیوں کے چونکا دینے والے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے والدین کی ایک تنظیم کے تعاون سے خرم نے جبری گمشدگیوں جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دنیا کی متوجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ خرم پرویز کی انتھک محنت کو بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پذیرائی اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ان کی کوششوں کو اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر (او ایم سی ٹی) کے سیکرٹری جنرل جیرالڈ سٹیبروک نے کہا "خرم پرویز کی من مانی اور غیر منصفانہ نظر بندی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے ان افراد پر مسلسل حملوں کا نتیجہ ہے، جو اس کی امتیازی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو اختلاف رائے کرنے والی ہر آواز کو دبانے کی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے اور ملک میں انسانی حقوق کے دفاع کے حق کو یقینی بنانا چاہیے‘‘۔ ایف آئی ڈی ایچ کی ایلس موگوے نے تبصرہ کیا، "خرم پرویز کے معاملے پر اقوام متحدہ کا فیصلہ واضح طور پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کی نظر بندی ان کے انسانی حقوق کے کام کے خلاف انتقامی کارروائی ہے،اسے اور پوری کشمیری سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کے مطابق خرم پرویزکو فوری رہا کیا جائے‘‘۔ نمایاں شخصیات کی گرفتاری کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل نگرانی بھی کی جاتی ہے۔ بھارتی حکام مسلسل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ابھرنے والی تنقیدی آوازوںکو زور زبردستی دباتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی پولیس یونٹ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے، جو کشمیری نوجوانوں اور سماجی کارکنان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی نگرانی پر معمور ہے۔بھارتی حکام اسپائی ویئر جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کرتے ہیں،جو کسی بھی موبائل فون اور اس کے ڈیٹا تک آسانی سے رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ جو بھی شخص حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی کرتاہے، اسے عسکریت پسندوں کا حامی کہہ کر نشانہ بنایاجاتاہے۔ بھارتی حکام نے کشمیریوں کے آن لائن اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور دبانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ڈرانے، ہراساں کرنے، ملازمت سے برخاست کرنے،نظر بندیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر لوگوں کو خوف زدہ کیاجاتاہے۔ بدقسمتی سے کشمیر میں میڈیا کو مختلف ذرائع سے خاموش کر دیا گیا ہے اور طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جاتاہے۔یہ پریشان کن صورتحال بین الاقوامی توجہ کی متقاضی ہے۔