خواجہ طاہر محمود کوریجہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے، گزشتہ سے پیوستہ روز (4مئی 2023ء )کو بہاولپور میں ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ خواجہ صاحب بندہ ناچیز سے بے حد محبت کرتے تھے، تقاریب کے موقع پر اکثر ملاقاتیں رہتیں اور ان کے دولت کدے پر بھی ادب کے حوالے سے طویل ملاقاتوں کے سلسلے جاری رہے۔ خواجہ صاحب اکثر کہتے کہ مجھے آپ کے اخبار کا نام ’’جھوک ‘‘اور آپ کے کالم کا عنوان ’’وسیب ‘‘بہت پسند ہے ، یہ ان کی زرہ نوازی تھی کہ وسیب کے حوالے سے میرے کام کا کھلے دل سے اعتراف کرتے اور مجھے داد دیتے رہتے۔ خواجہ طاہر محمود کوریجہ کی تاریخی کتاب ’’خواجہ فرید اور ان کا خاندان ‘‘کے علاوہ آپ کا ایک بڑا کام دیوان فرید کا ترجمہ اور تشریح ہے، پہلے ایڈیشن میں پروف کی چند ایک غلطیاں تھیں، دوسرے ایڈیشن میں لفظ شہر بھنبھور کی جگہ تخت لاہور بغیر کسی وجہ کے کر دیا گیا تو میں نے احتجاج کیا ، اس پر خواجہ طاہر محمود کوریجہ نے کہا کہ پبلشرز کی طرف سے ایسا کیا گیا ہے، میں نے کہا کہ جو ہوا ٹھیک نہیں ہے ، آپ کی طرف سے وضاحت آنی چاہئے۔ سچ بتا دینا چاہئے کہ دیوان فرید کی تحریف کی وجہ سے میں ان سے ناراض تھا، ایک مرتبہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ملاقات ہوئی تو خواجہ صاحب نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ آپ ناراض ہیں لیکن ہم ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے،کیا خبر تھی کہ ملاقات کی نوبت پھر نہ آسکے گی ۔ خواجہ طاہر محمود کوریجہ کا تعلق خواجہ فرید کے گھرانے سے ہے، اس خاندان میں حضرت خواجہ محمد عاقل کوریجہ ، حضرت خواجہ خدا بخش کوریجہ، حضرت خواجہ تاج محمود کوریجہ ، حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ، حضرت خواجہ احمد علی ، حضرت خواجہ گل محمد المعروف بدھن سئیں جیسے خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوئے۔ خواجہ طاہر محمود کوریجہ 18 اگست 1942ء کوضلع رحیم یار خان کے علاقہ شیدانی شریف میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد خواجہ غلام غوث کوریجہ کو اردو اور سرائیکی زبانوں کے علاوہ سندھی ، بلوچی اور سنسکرت زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ خواجہ غلام غوث کے ہاں پانچ صاحبزادگان خواجہ ہوت محمد ، خواجہ عبداللہ ، خواجہ طاہر محمود، خواجہ محمد اکبر اور خواجہ محمد اصغر پیدا ہوئے۔ خاندان کوریجہ میں خواجہ طاہر محمود کوریجہ واحد شخصیت ہیں جن کا شمار ملک کی نامور اہل قلم شخصیات میں ہوتا ہے، خواجہ طاہر محمود کوریجہ کی تصانیف میں پہلی کتاب ’’تاریخ کے جھروکوں سے‘‘، دوسری کتاب ’’نوادرات‘‘ ، تیسری کتاب ’’خواجہ فرید اور ان کا خاندان ‘‘، چوتھی کتاب ’’عظیم شخصیات کے آخری لمحات‘‘، پانچویں کتاب ’’دیوان فرید ترجمہ و شرح‘‘شامل ہیں ۔’’ عظیم شخصیات کے آخری لمحات‘‘ میں خواجہ طاہر محمود کی کوریجہ نے تقریباً دو صد پچاس مشاہیر کی زندگی کے آخری لمحات کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے اورتمام مشاہیر کی تاریخ وفات ان کی عمر اور ان کی تدفین کی تفصیل بھی درج کر دی ہے، اس طرح یہ کتاب ان مشہور ہستیوں کی مختصر تاریخ بھی بن گئی ہے۔خواجہ طاہر محمود کوریجہ کے فن اور شخصیت پر 1996ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ اردو اقبالیات کی طرف سے طالبہ بشریٰ ناہید نے ریسرچ کی۔ بشریٰ ناہید نے لکھا کہ کوریجہ صاحب کے تعارف کے لئے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ ایسے جید شاعر، صوفی عاشق، عارف کے نواسے ہیں جنہوں نے عشق تصوف اور سلوک کے رموز و مسائل کو شعروں میں سمود دیا ہے۔ سرائیکی زبان اور روہی کے سارے رنگوں کو قوس قزح کی مانند آسمان پر بکھیر دیا جو آسمان ادب کا حسین و دلکش مرقع ہے، اتنے خوبصورت تعارف کے باوجود کوریجہ صاحب نے اپنا مقام خود بنایا ہے، علمی ادبی حلقوں میں ان کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ خواجہ طاہر محمود کوریجہ کو لکھنے پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ انہوں نے 1966ء میں اپنے گائوں شیدانی شریف میں بزم ادب قائم کی اور بزم ادب کے زیر اہتمام یادگار ادبی تقریبات کا انعقاد کراتے رہے۔ سجادگی کے علاوہ آپ کاشت کار بھی تھے اور اس میدان میں بھی آپ مثالی کاشتکار ٹھہرے۔ زراعت میں روایتی طور طریقوں کو پسند نہیں کرتے تھے گو کہ وہ خود بڑے زمیندار تھے مگر دیہاتوں میں جاگیردارانہ نظام سے ان کو نفرت تھی، غریب ہاریوں ، کاشتکاروں پر ہونے والے ظلم کو وہ برداشت نہ کرسکے اور اسی بناء پر وہ دیہات کی زندگی کو ترک کر کے بہاولپور شہر میں آ کر بسے۔ جب آپ شیدانی شریف میں رہائش پذیر تھے تو ملک کے معروف جرائد و اخبارات ماہ نوع، چٹان، نقاد، امروز، نوائے وقت کیلئے لکھتے رہے، اس ضمن میں آپ کے مضامین کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے۔ خواجہ طاہر محمود کوریجہ نے ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی قدم رکھا اور 1963ء میں جمعیت علماء پاکستان میں شمولیت اختیار کی مگر سیاست کی ریشہ دوانیوں کے باعث جلد ہی سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے ، ہر شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا تلخ جام پینا ضروری ہے ، یہ یقین ہر قسم کے کھٹکے وشبہے سے بالا تر ہے کیونکہ جب سے دنیا قائم ہے کسی نفس وجان نے موت سے چھٹکارا نہیں پایا ہے۔ کسی بھی جاندار کے جسم سے روح نکلنے اور جدا ہونے کا نام موت ہے۔ ہر انسان خواہ کسی مذہب سے وابستہ ہو یا نہ ہو ۔ اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرتا ہے کہ اس کی دنیا وی زندگی عارضی وفانی ہے، ایک روز سب کو کچھ چھوڑ کر اس کو موت کا تلخ جام پینا ہے ، گویا موت زندگی کی ایسی ریٹائرمنٹ ہے جس کے لئے کسی عمر کی قید نہیں ہے اور اس کے لئے ماہ وسال کی جو مدت مقرر ہے وہ غیر معلوم ہے۔یہ دنیاوی زندگی ایک سفر ہے جوعالم بقا کی طرف رواں دواں ہے، ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے۔بزرگ کہتے ہیں کہ زندگی موت کی امانت ہے ، خواجہ فریدؒ نے فرمایا ہے کہ ’’جیون دے ڈینھ ڈھائی وو یار ، سٹ گھت فخر وڈائی وو یار‘‘۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ مر کر بھی نہیں مرتے اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اپنے کام اور اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ،خواجہ طاہر محموود کوریجہ بھی اپنے کام اور اپنی یادوں کے ساتھ زندہ رہیں گے ۔ حضرت بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا ’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ،گور پیا کوئی ہور‘‘۔