سیاسی گتھیاں الجھتی ہی جا رہی ہیں، سیاست دان اور دیگر اداروں کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سب منتظر ہیںکسی انہونی کے ہونے کا۔ایک غیر یقینی کیفیت ہے جس سے عوام ہوں یا حکمران سب دوچار ہیں ۔ پاکستان اس وقت جس بحران سے گزر رہا ہے ۔ اس کا سامنا کرنے کے لئے سیاست دانوں سے جس تحمل،تدبر ،اور دور اندیشی کے اختیار کرنے کی توقع تھی وہ اپنے رویوں میں اس سے اتنے ہی دور نظر آرہے ہیں۔ اس بات کے تسلیم کئے جانے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھنا ایک خیال خام کے سوا کچھ بھی نہیں مگر کیا کیا جائے جو دل میں درد رکھتے ہیں اس ارض پاک کا اور رہتے ہیں دست بدعا ہر پل کہ قائم رہے امن و سکون ہر جا اور خوش حال رہیں اس کے مکین و مکاں ان کی رومانویت پر استوار اس ملک سے ان کی وابستگی انہیں بے چین کئے رکھتی ہے، ان کی نظریں ڈھونڈ تی رہتی ہیں سیاسی قیادت میں کسی مرد دانا وبینا کو جو ان الجھتی گتھیوں کو سلجھانے میں رہ نما ہو جائے مگر چشم فلک نے بارہا دیکھا ہے ہمارے خوابوں کا پریشاں ہو جانا !! گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نا اہلیت کا پروانہ جاری کیا ہے۔اس فیصلے کے جو بھی قانونی پہلو رہے ہوں یا یہ فیصلہ کتنا ہی درست کیوں نہ ہو ۔ اور یہ کس حد تک اور کس طرح موثر ہو پائے گا ان سب سے قطع نظر ہم اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ فیصلہ ساز ادارے فیصلوں کوکس تکنیکی بنیاد پر محفوظ کرتے ہیں اور پھر جس وقت وہ ان کا اعلان کرتے ہیں تب وقت کی موزونیت کس بنیاد پر ہوتی ہے ہمارے خیال میں یہی وہ رمز خاص ہے جس سے بااختیار ادارے ان فیصلوں سے مخصوص اور مطلوب نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی طرح مقدمات کی طوالت کی بھی ایک تاریخ ہے جن مقدمات کے فیصلے مطلوب نہیں ہوتے وہ سالوں التوا کا شکار رہتے ہیں اگر کوئی حکومت میں ہے یا طاقتور حلقوں کی سرپرستی میں ہے یا فیصلے کے لئے مناسب وقت اور موقع کا انتظار ہے تو ان مقدمات کے لئے کوئی عجلت نہیں۔توشہ خانہ سے متعلق اور بھی کیسز الیکشن کیشن میں زیر سماعت اور التوا ہیں۔ اسی طرح ممنوعہ فارن فنڈنگ کے حوالے سے عمران خان کا معاملہ بھی کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے مگر سماعت ہے کہ ختم ہی نہیں ہو پا رہی۔ان کی حکومت بنی بھی اور ختم بھی ہو گئی مگر ممنوعہ فارن فنڈنگ کا قضیہ طے نہیں ہو سکا۔سیاسی ادارے ہوں یا دیگر ریاستی ادارے جب مصلحت اور مصالحت کی بنیاد پر اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی میں دانستہ کوتاہی اور تاخیر کے مرتکب ہونے لگیں تو اس سے جہاں انصاف پامال ہوتا ہے وہاں ان اداروں کا وقار اور جواز بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور مجموعی طور پر اس کے اثرات پورے سماج پر منفی مرتب ہوتے ہیں اور بسا اوقات مخصوص اور مطلوب نتائج توقعات کے برعکس بھی نکل آتے ہیں ۔الیکشن کمیشن کا موجودہ فیصلہ بھی اسی صورتحال کا غماز نظر آتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب عمران خان کی انتخابی کامیابیوں کے باعث ان کی عوامی مقبولیت بام عروج پر ہے اور وہ اسلام آباد کی طرف یلغار کے اعلانات سے سیاسی ہلچل بھی پیدا کئے ہوئے ہوں اس فیصلے کے وقت کے انتخاب نے پہلے سے موجود سیاسی محاذ آرائی کی فضا کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔ سیاسی ادارے عمران خاں کی سیاسی حکمت عملی ( یا بد عملی) کے باعث بڑی حد تک کمزور اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت میں ہیں۔ حکومتی زعماء اپنے ہونے یا نہ ہونے کے گمان و یقین سے دو چار ہیں وفاقی حکومت کے قابومیں نہ معیشت آرہی ہے نہ سیاست اور نہ ہی اتحادی۔وہ کرے تو کیا کرے۔جس بحران در بحران میں اس وقت پاکستان کی ریاست گھری ہوئی ہے اس میں ضرورت تو اس امر کی ہے کے تمام سیاسی اور ریاستی ادارے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے باہمی اشتراک سے موجودہ پیچیدہ اور گھمبیر ہوتی ہوئی صورتحال سے ملک و قوم کو نکالنے کی تدبیر کریں ۔یہ وقت کسی کی بالادستی یا کسی کی کامیابی یا ناکامی پر جشن منانے کا نہیں بلکہ مستقبل کی صورت گری کا ہے ۔عمران خان ہوں یا اتحادی حکومت کے وابستگان،سیاسی ادارے ہوں یا غیر سیاسی ادارے ۔ وقت کی پکار کو سنیں اس کے تقاضوں کو سمجھیں مسائل کو الجھانے کے بجائے انہیں سلجھانے کی کوشش کریں ۔ ہم پہلے بھی بزبان قلم یہ بات کہ چکے ہیں کہ موجودہ کشیدہ سیاسی فضا کی حدت کو کم کرنے کی بڑی ذمہ داری عمران خان کی ہی ہے۔معاملات کے سنبھالے جانے کی چابی اب بھی ان کے ہاتھوں میں ہے۔وہ اب بھی اس سیاسی نظام میں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ پنجاب ، خیبر پختون خواہ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے۔قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کے اراکین کی واپسی کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا،وہ ایوان بالا میں اب بھی ایک موثر اور متوازن پوزیشن میں ہیں قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی واپسی سے سیاسی نظام میں ان کی حیثیت اور اہمیت اور مستحکم ہو جائیگی۔