جنوری 2003ء کا نصف دریا بہہ چکا تھا جب صدر جنرل پرویز مشرف نے گورنر ہائوس لاہور میں اراکین پنجاب اسمبلی سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان اب آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد ہو چکا ہے‘ اپنے تین سالہ دور حکومت کی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت قرضوں سے نجات حاصل کر کے نئے آفاق کو چھونے کے لیے تیار ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اس موقع پر کچھ اعداد و شمار پیش کئے۔ انہوں نے بتایا کہ 1988ء سے 1999ء تک آنے والی حکومتوں (بے نظیر و نوازشریف) نے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1200 ارب روپے خرچ کئے لیکن چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا یہ رقم کسی منصوبے پر خرچ نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہی رقم عدلیہ پر خرچ کی جاتی تو ملک کی سماجی حالت بہتر ہو جاتی۔ میں نے ایک رپورٹ دیکھی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیانی عرصے میں پاکستان کے قرضوں میں ہر سال 21.5 فیصد اضافہ ہوتا رہا۔ یہ پیپلزپارٹی کا دور حکومت ہے جو آج پی ڈی ایم کی سینئر اتحادی ہے اور جس کے سپیکر قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو داخل ہونے سے روک رہے ہیں۔ یاد رہے سن 2000ء سے 2007ء تک قرضوں میں اضافے کی سالانہ شرح صرف 6.6 فیصد تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک پر قرضے کی صورت میں 17.9 ارب ڈالر واجب تھے جبکہ مختلف منصوبوں کے لیے گرانٹس کا حجم 5.06 ارب ڈالر تھا یوں مجموعی طور پر قرض کی گٹھڑی 23 ارب ڈالر تھی۔ اس میں آئی ایم ایف سے حساب زیرو کی سطح پر آ گیا تھا۔ پرویز مشرف دور کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے جب معاشی خوشحالی کی دلیل کے طور پر ہر شخص کا موبائل خریدنا بتایا تو اس بات پر ٹھٹھ اڑایا گیا۔ لوگ گاڑیاں خرید رہے تھے۔کہا گیا گاڑیاں فروخت ہونا آسودگی کی علامت نہیں۔ میں نے اسی زمانے میں اپنا گھر بنایا‘ میرے بھائی کا گھر بھی اسی دور میں بنا۔ ہم جیسے لاکھوں سفید پوشوں کی ماہانہ آمدنی فی تولہ سونے سے زیادہ تھی۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اس صورت آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں جب آپ امریکہ کی ضرورت ہوں۔ اگر آپ امریکہ کے فقط دوست ہیں تو محتاط انداز میں ان سے مدد لے سکتے ہیں۔ امریکی پالیسیوں میں آپ کے ملک کو اگر مشکوک قرار دیا جاتا ہے تو پھر سمجھیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک آپ کے ملک کی معیشت کا سانس بند کردیں گے۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو نان نیٹو اتحادی بنایا لیکن دراصل اسے مشکوک ممالک کی فہرست میں ڈال دیا۔ امریکی حکام اپنی حکومتوں کو یہ باور کراتے رہے کہ جنرل پرویز مشرف ان کے ساتھ ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں طالبان قیادت کی کوئٹہ میں موجودگی کا ذکر کیا جاتا۔ اپنے شک کو دور کرنے کے لیے عالمی ایجنسیوں نے پاکستان کے فرقہ پرست گروہوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی خدمات حاصل کیں۔ یہ مسلح گروہ دراصل فنڈز فراہم کرنے والے ملکوں کی فوج کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کئی گروپ اب بھی ایسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان سفارتی و سیاسی سطح پر جو مطالبہ تسلیم نہیں کرتا تھا‘ ان گروہوں کی کارروائیوں کے ذریعے وہ بات منوالی جاتی۔ بیرونی نیٹ ورک کے بہت سے کارندے اسامہ بن لادن کو پاکستان میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ معلوم نہیں اسامہ ایبٹ آباد میں کیسے رہ رہے تھے لیکن پی پی حکومت میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کے بھیس میں جاسوسوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا۔پی پی کی امریکہ سے حالیہ پیار بھری پینگوں میں یہ حوالہ موجود ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا۔ ایک روز جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور ایم ایم اے کے عہدیدار لیاقت بلوچ ہمارے دفتر تشریف لائے۔ ایم ایم اے نے پرویز مشرف سے وردی اتارنے کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ میں نے دیگر احباب کی موجودگی میں محترم لیاقت بلوچ سے کہا کہ ایم ایم اے جلد جنرل پرویز مشرف کو وردی اتارنے کی اتنی مہلت دیدے گی کہ جنرل مشرف اپنے آئینی معاملات قابو میں لے آئیں گے۔انہوں نے یکسر نفی کر دی۔چند ہفتے گزرے تھے کہ ایم ایم اے نے فوجی آمر کو وردی اتارنے کے لئے ایک سال کی مہلت دیدی ۔ مولانا فضل الرحمان سے لے کر مرحوم قاضی حسین احمد تک سب کا کہنا تھا کہ انہوں نے پر امن طریقے سے جنرل سے بات منوا کر عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔لیاقت بلوچ صاحب کو دوبارہ اخبار کے فورم میں مدعو کیا گیا اور مجھے ان سے مکالمہ کا موقع دیا گیا۔ لیاقت بلوچ کی میٹھی مسکراہٹ ان کے الفاظ کی نسبت زیادہ بولتی رہی ۔اس واقعہ کے بعد میں ایم ایم اے کو ملا ملٹری الائنس سمجھنے میں حق بجانب تھا۔ لال مسجد کا واقعہ افسوسناک تھا۔ اس سانحہ کو تخلیق کرنے کے لیے ایک سکرپٹ کہیں لکھا گیا ہوگا۔ مدرسے کی طالبات کا چلڈرن لائبریری پر قبضہ‘ آبپارہ مارکیٹ اور بس سٹاپ پر راہ چلتی خواتین کو ڈنڈے سے سدھارنے اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے ایک خوف پیدا کیا گیا۔ یقین سے نہیں کہہ سکتا، بس ایک گمان ہے کہ لال مسجد آپریشن کا ماحول پیدا کرنے والے کردار خود اسی آپریشن میں مارے گئے۔ یوں کئی راز راز ہی رہ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے انتقال پر لال مسجد کے مہتمم مولانا عبدالعزیز کا بیان آیا۔ انہوں نے پرویز مشرف کو اپنے خاندان اور خود پر ہوئے مظالم پر معاف کرنے کا اعلان کیا۔ یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کو جمہوری جدو جہد کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے ۔وکلا تحریک کو آغاز کا کریڈٹ دیا جاتا ہے ۔پیپلز پارٹی این آر او کرانے اور پھر جنرل کو گارڈ آف آنر دے کر اقتدار سے باہر کرنے کا سہرا باندھتی ہے۔کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ امریکہ کا ترتیب دیا گیا کھیل تھا ،وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے جنرل پرویز مشرف پر دباو ڈال کر این آر او دینے پر مجبور کیا،جمہوریت کے نام پر جو نئی حکومتیں آئیں انہوں نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کا کشکول تھام لیا۔جنرل مشرف کو نکالنے کا مقصد پورا ہوگیا۔محترم، خواجہ آصف ملک دیوالیہ یوں ہوا۔