قوم کو مبارک ہو۔ حکومت نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران ہے۔ ورنہ ہم تو حکومت کی ہربات انکھیں بند کر کے مان لیتے ہیں۔چاہے پنکھا بند ہو۔ جب حکومت کہتی ہے ملک میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہے ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارا پنکھا ریسٹ کر رہا ہے۔ بجلی کی موٹر کا موڈ چلنے کا نہیں ہے۔وہ تو ایک گھنٹے کی ریسٹ کے بعد پنکھا خود بخود چل جاتا ہے اور پانی کا پمپ بھی پانی دینے لگتا ہے۔ خوشخبری یہ ہے حکومت نے 438ارب روپے کی بچت کا پروگرام بنا لیا ہے۔حکومت یہ بچت اس طرح کرے گی کہ حکومت پورے 8000 میگا واٹ بجلی کی بچت کرے گی۔ بجلی کی بچت کیسے ہو گی ۔یہ معاملہ پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ ہر بار مسئلہ وہی ہوتا ہے ڈھاک کے تین پات والی مثال ہے۔ مارکیٹ چار گھنٹے پہلے بند ہو جائے گی۔اس طرح سے 62ارب روپے کی بچت ہو گی۔ 20فی صد لوگ گھر بیٹھ کر کام کریں گے۔اس طرح سے 56ارب روپے کی بچت ہو گی۔ پٹرول کی جگہ الیکٹرک بائیک استعمال ہو گی اور اس طرح 86ارب روپے کی بچت ہوگی۔ کاغذ پر یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں جب ان کا عملی اطلاق ہو گا تو پتہ چلے گا اس طرح کے پہلے بھی کئی بار اعلان ہو چکے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ان پر عمل درامد نہیں ہوا۔اگر ہوتا بھی ہے تو کچھ عرصے کے لئے۔ ہمارے ہاں لوگوں کا لائف سٹائل بن گیا ہے دیر تک جاگنا اور اور دن چڑھے اٹھنا۔ آپ لاہور کی مثال لے لیں لوگ تین بجے سے چار بجے صبح تک سڑکوں پر پھر رہے ہوتے ہیں اور دن ایک بجے سے پہلے کوئی مارکیٹ اوپن نہیں ہوتا۔ کچھ جگہ تو دو تین بجے دن کو مارکیٹ کھلتی ہے۔ آپ لاہور کے کسی بڑے کاروباری مرکز یا ہال روڈ چلے جائیں، ایک بجے سے پہلے آپ کوکوئی دکا ن کھلی نہیں ملے گی۔ کیا یہ لوگ چار بجے سے 8بجے تک مارکیٹ کھلی رکھنے پر رضا مند ہو جائیں گے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے دور میں جو کہ تاجروں کی خیر خواہ جماعت سمجھی جاتی ہے۔ حکومت جو تیل کے ٹیکس پر چلتی ہے وہ پاکستان میں تیل کی کھپت کو کم ہونے دے گی۔ یہ سب شیخ چلی والی منصوبے ہیں ان پر عملدرآمد کرنا بہت مشکل ہو گا۔ حکومت جب تک خود بچت نہیں کرتی اس وقت تک بچت کا راگ الاپنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس وقت آپ وزیروں اور مشیروں کی فوج دیکھ لیں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات آپ کوخود پتہ چل جائے گا حکومت بچت کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے۔اس طرح کے اعداد شمار میں بھی فراہم کر سکتی ہوں۔ اس وقت ملک میں دو کروڑ سے زائد نوجوان فارغ ہیں۔ اگر ایک نوجوان ان لائن جاب سے 1000ڈالر ایک مہینے کا کمائے تو ایک ہزار افراد ایک ملین ڈالر کما سکتے ہیں۔ایک لاکھ افراد سو ملین ڈالر اور دس لاکھ نوجوان ایک بلین ڈالر کما سکتے ہیں ۔ایک کروڑ نوجوان دس بلین ڈالر اور دو کروڑ نوجوان 20 بلین ڈالرماہانہ کما سکتے ہیں۔ایک سال میں 240بلین ڈالرکما سکتے ہیں اور اس بات کو بھی ذہن نشین کریں آئی ایم ایف کی امداد صرف تین بلین ڈالر کی ہے۔ جس پر ساری حکومت خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ تمام میڈیا حکومت کو مبارک باد دے رہا ہے کہ حکومت کی کامیاب سفارت کاری کی بدولت آئی ایم ایف نے ہمیں قرض دے دیا ہے۔ قرض حاصل کرنے پر اتنی خوشی اور مبارکباد میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ پہلے جب حکومت قرض لیتی تھی تو شرمندہ نظر آتی تھی اور وضاحت کرتی پھرتی تھی کہ ہم یہ قرض مجبوری میں لے رہے ہیں۔ یہ حکومت پہلی حکومت ہے جو قرض لیکر بھی اتراتی پھرتی ہے۔غالب کا ایک شعر ہے جس کا مفہوم یوں ہے کہ قرض کی شراب لیکر پیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہماری فاقہ مستی ایک دن رنگ لا ئے گی۔ آمدن ہمارے دھیلے کی نہیں ہے اور ہم سارا سال قرض لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک ماہ اس بات پرخوش ہوتے ہیں کہ دوست ملکوں نے ہم پر اعتبار کیا اور ایک بار پھر ہم کو قرض دے دیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے کچھ فوری اثرات ہوئے ہیں اب ہم کو چین اور سعودیہ اور یو اے ای سے بھی کچھ قرض مل جائے گا۔ سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ہے ۔سونے کا ریٹ کم ہوا ہے۔ ڈالر کی اڑان میں کمی آئی ہے۔ سرمائے میں تین کھرب اور18ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔88فی صد حصص کی قیمت میںاضافہ ہوا ہے۔ اب آئی ایم ایف کے معاہدے کے کچھ منفی اثرات بھی ہونگے۔ بجلی مہنگی ہوگی۔ کچھ عرصے بعد غبارے سے ہوا نکلے گی۔جب مبارکباد کا شور کم ہو جائے گا اس وقت پتہ چلے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔فی الحال اگلے دو تین ماہ حکومت کے لئے اچھے ہیں۔ الیکشن آنے والہ ہے۔ الیکشن میں پتہ چل جائے کہ کون کس حد تک مقبول ہے۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف تو بد ترین حالات میں ہے۔پاکستان مسلم لیگ نوازاور پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحاد الیکشن تک رہتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون کس کا ساتھ دے گا اور کون کون سے نئے اتحاد بننے والے ہیں۔ اس وقت تو ایک بہت بڑا اتحاد ہے جس کو مقتدر حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس وقت بہت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس وقت تک بہت بڑے بڑے لوگ پاکستان تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں۔ کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جو آزمائش کے وقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ثابت قدم رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت بھی پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے مگر وہ قبولیت کا درجہ کھو چکی ہے اور پاکستان کی تاریخ ہے جو قبول نہ ہو وہ اقتدار میں نہیں آسکتا۔