کئی دن ہو گئے ہیں جڑانوالہ میں عیسائی بھائیوں کے ساتھ ہونے والا سانحہ ہے کہ اس کا درد کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ یہ راقم جوں جوں اس واقعہ کی وجوہات‘ اس کے پیچھے کارفرما سوچ اور مفادات اور اس کے ممکنہ نتائج پر غور کرتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم کس طرح کے معاشرے میں رہ رہے ہیں‘ کیا ان اعمال کے ساتھ ہم اپنے رحمۃ اللعالمین کے حضور روز محشر کو پیش ہوں گے تو اس کی بے بس مخلوق کے ساتھ اس طرح روا رکھے گئے سلوک کا کوئی جواب دے سکیں گے؟ سوال ابھرتا ہے کہ کیا کوئی عبادت گاہ کسی سرکاری عمارت سے کم قابل احترام ہے کہ اس کی تباہی و بربادی اور توڑ پھوڑ پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس مملکت خداداد کے تمام ادارے اس اہم کام کے لیے نہیں نکل سکتے کہ ایسے عناصر کا قلع قمع کرنا ہے، ان کو اس طرح عبرت کا نشان بنانا ہے کہ آئندہ کوئی اس طرح کی حرکت کی جرات نہ کرسکے۔ سانحہ خانیوال ہو‘ گوجرہ ہو یا بادامی باغ، گوجرانوالہ ہویا جڑانوالہ۔جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو راقم کو چودہ سو سال پیچھے لے جاتا ہے۔ ہمارے پیارے رسولؐ اور خلفائے راشدینؓ سے زیادہ تو کوئی رول ماڈل ہمارے لیے نہیں ہے۔ خصوصاً جب کسی واقعہ کا تعلق مذہب کے ساتھ ہو تب تو آقائے دو جہاں اوران کے چار یاروں سے بڑھ کر کوئی نمونہ قابل تقلید ہو ہی نہیں سکتا۔ راقم نے بار بار مطالعہ کیا ہے۔ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے تو کوئی ایک بھی واقعہ کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی، جس کو بنیاد بنا کر جڑانوالہ کے واقعے کا کوئی جواز تراشا جا سکے۔ آپؐ کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں آپؐ اور آپ کے مٹھی بھر صحابہ کرام ؓ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ تین دفعہ تو ابو جہل اور عقبہ نے آپﷺ کو اوجھڑی اور کپڑے کے ذریعے گلا گھونٹ کر نعوذ باللہ شہید کرنے کی کوشش کی، جب آپؐ خانہ کعبہ میں عبادت میں مصروف تھے۔ آپ کے صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کو ناقابل بیان اذیتیں دی گئیں۔ آپؐ پر کوڑہ کرکٹ پھینکا گیا‘ آپﷺ کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔مسلمانوں کو پہلے حبشہ اور پھر یثرب کی طرف ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ مدینہ میں بار بار حملے کر کے اوروہاں مسلمانوں کی معاشی ناکہ بندی کر کی گئیں ۔ وہ کون سا دکھ اور تکلیف ہے جو آپؐ کو نہیں دی گئی لیکن آپﷺ نے نہ تو اس وقت جب آپؐ کمزور تھے ،اس کا بدلہ لیا اور نہ اس وقت جب فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد تمام بلاد عرب آپ کی مکمل دسترس میں آ گیا۔ آپ نے کسی کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا باوجودیکہ بہت سے ایسے مواقع بھی آئے جب حضرت عمر فاروق ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ ؓ بھی کفار کی گردنیں اڑانے کے حق میں تھے پھر بھی آپؐ نے ابو سفیان کے گھر کو دارالامن قرار دیا ۔ ہندہ جس نے آپ کے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا تھا اور وحشی بن حرب جس نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا۔ اسی طرح غزوہ حنین کے موقع پر قبیلہ ہوازن کے بیس ہزار لشکر کے سپہ سالار مالک بن عوف نضری جس نے ایک موقع پر بہت سے صحابہ کرام ؓکو شہید کر کے اسلامی سپاہ کو پسپائی پر مجبور کردیا، اسے بھی معاف کرکے اس کو سارا مال و اسباب بھی واپس لوٹا دیا۔ معافی کا سلسلہ آپؐ کی رضائی بہن شیما کی درخواست سے شروع ہوا۔ پھر آپؐ نے اپنے حصے میں آنے والے غلام‘ لونڈیا اور سارا مال و غنیمت واپس لوٹا دیا جس پر جید صحابہ کرام حضرت ابوبکر ؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور دیگر صحابہ کرام نے بھی اپنے اپنے حصے میں آنے والے قیدیوں اور مال و اسباب کو واپس لوٹا دیا حالانکہ یہ کفار دراصل اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں سے مکہ واپس لینے کے لیے جنگ کرنے آئے تھے۔ قبل ازیں میثاق مدینہ کے موقع پر بہت واضح طور پر آپؐ نے ریاست مدینہ کے اندر رہنے والے تمام دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے پنے مذہب پر عمل پیرا رہنے کی مکمل آزادی دے دی بلکہ میثاق مدینہ کی بنیاد بھی آزادی اور مساوات پر رکھی گئی جو ریاست کے تمام شہریوں کو بلاتصدیق حاصل تھی۔ عیسائی بادشاہ نجاشی پہلا آدمی تھا جس نے مہاجر مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی۔ فتح یروشلم کے موقع پر عیسائیوں کو حضرت عمرؓ نے فتح کی پوری طاقت رکھنے کے باوجود تاقیامت امان اورمذہبی آزادی دے دی۔ راقم حیران ہے کہ 9 مئی واقعے واقعہ کی طرح جڑانوالہ جیسے واقعات کے موقع پر وہی ٹیکنالوجی استعمال کر کے شرپسندوں کی نشاند دہی کیوں نہیں ہو سکتی اور کیوں ایک ہی دفعہ راست اقدام کر کے ہمیشہ کے لیے بس گھنائونے کاروبار کا راستہ بند نہیں کر دیا جاتا جو کئی اور عوامل کے ساتھ مل کر ہماری ریاست کو گھن کی طرح کھوکھلا کر رہا ہے۔ دیر تو پہلے ہی بہت ہو چکی ہے۔ خدارا اب بھی کچھ کیجئے شاید تباہی کی رفتار تھم جائے۔