پاکستان کے باسی بچپن سے ہی ایک جملہ تواتر سے سنتے آرہے ہیں اور وہ ہے’’پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘یہ جملہ ہم اتنی کثرت سے سن اور پڑھ چکے ہیں کہ اب حیرت نہیں ہوتی۔ وطن عزیز کی مشکلات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ لکھنے بیٹھوں تو شاید سارا اخبار بھر جائے۔ ہم ایسی قوم ہیں جو مشکلات سے خود کو نکال تو نہیں سکتے لیکن ہر طرح کے کٹھن حالات میں بھی جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ حالیہ سیلاب نے پاکستان میں جو تباہی مچائی ہے وہ پہلے نا کبھی دیکھی نا سنی ، اسکے باوجود لوگ جی رہے ہیں اس امید کیساتھ کہ ہم پھر سے بحال ہونگے، ہم پھر سے اٹھیں گے اور ایک بار پھر اپنے گھر بنائیں گے اور فصلیں اگائیں گے۔ پاکستان کے اندر اور باہر سے مخیر حضرات دل کھول کے سیلاب زدگان کی مدد کررہے ہیں لیکن آنکھوں دیکھے حالات یہی بتاتے ہیں کہ مسائل بے تحاشا ہیں اور وسائل بہت کم۔ لیکن آج جس فکر نے مجھے قلم اٹھانے پہ مجبور کیا اسکا تعلق موجودہ صورتحال میں ہونے والی شدید مہنگائی اور غذائی اجناس کی قلت سے ہے۔ چند دن پہلے سونے کے بھاؤ بکتی پھل سبزی کی خریداری کرتے ہوئے اطراف کا جائزہ لیا تو محسوس ہوا کہ دکاندار اور خریدار دونوں ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اشیائے خوردونوش قوت خرید سے بڑھ چکی ہیں اور لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ آخر کریں تو کیا کریں ؟ حالیہ سیلاب کی وجہ سے کھڑی فصلوں کی تباہی و بربادی نے جہاں غذائی قلت کو جنم دیا ہے تو وہیں مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے پانی کے نکلنے، زمین کے خشک اور دوبارہ قابل کاشت ہونے تک اسی قلت کا سامنا رہے گا اور فی الوقت پورے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے ہمسایہ ممالک سے سبزی اور پھل درآمد کیے جارہے ہیں کیونکہ سیلاب سے بچ جانے والے علاقوں سے حاصل ہونے والی پیداوار ناکافی ہے۔ لہٰذا مہنگائی کا یہ سیلاب تو تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور غریب عوام ہیں کہ اس کی شدت میں بہتے چلے جا رہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔ لیکن یہاں میری سوچ ایک اور نکتے پہ مرکوز ہے جسکی جانب غالباً اکثریت کا دھیان نہیں ہے اور اس مسئلے کا براہ راست تعلق مستقبل میں ہونے والے خوراک اور زمین کے بحران سے ہے۔ ان پیچیدہ حالات میں بھی اگر کوئی کاروبار ترقی کررہا ہے یا لوگوں کو کسی نا کسی صورت نفع دے رہا ہے تو وہ ہے ریئل اسٹیٹ کا کاروبار یعنی زمین کے لین دین، خرید و فروخت کا کاروبار۔ پاکستان میں اس وقت بے تحاشا ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں جنکو شمار کرنا بھی شاید ممکن نہیں رہا۔ مختلف شہروں کی حدود تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہ اپنی اندرونی پیداوار سے کافی حد ملکی معیشت کو سہارا دیتا ہے تو وہیں اپنی اکثریت کو خوارک فراہم کرتا ہے یہاں لوگوں کی اکثریت کاشتکاری اور مال مویشی پال کر اپنا چولہا جلاتے ہیں۔ وطن عزیز میں چاول، گندم، گنا، کپاس اور دیگر اجناس کیساتھ کثیر تعداد میں مختلف اقسام کے پھلوں کے باغات بھی لگائے جاتے ہیں جو بیرون ملک بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔ لیکن پچھلی ایک دہائی میں صورتحال کافی سنگین ہوگئی ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں اور ہر سال چاول، گندم ، چینی اور دیگر اجناس ہمیں باہر سے مہنگے داموں خریدنے پڑتے ہیں۔ غذائی ماہرین کے مطابق ایک زرعی ملک کی برآمدات میں کمی اور اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے درآمدات میں اضافہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے اور مستقبل کیلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بروقت بارشوں کا ناہونا، پانی کی کمی اور کسان طبقے کے ساتھ ہونے والی نا انصافی جہاں اسکی بنیادی وجوہات ہیں تو وہیں زرعی زمین کا مسلسل خرید و فروخت کا عمل بھی اس قلت کا باعث ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی اور شدید مہنگائی جہاں غربت میں اضافے کا باعث ہے تو اب اکثریت زرعی زمین کو بیچ کر کمرشل بنانے اور اس سے منافع حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ ایکڑوں کے حساب سے زرعی زمین کو بیچ کر اس پہ کمرشل ایریاز اور رہائشی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اپنا گھر بنانا ہر پاکستانی کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے ساری زندگی تگ و دو کی جاتی ہے۔ ساری زندگی کی جمع پونجی جوڑ کر اپنا گھر بنانے کا خواب پورا کیا جاتا ہے لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ ہم نہیں دیکھ رہے۔ گھروں، کالونیوں ، نت نئے شہروں کی بھرمار، جدید بازار اور بلند و بالا کمرشل پلازے جہاں لوگوں کی پراپرٹی اور کاروبار میں اضافے کا باعث ہیں تو دوسری جانب بالواسطہ یا بلا واسطہ ملک میں زرعی زمین کی قلت کا سبب بن رہے ہیں۔ لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت وقت اور صاحب اقتدار طبقہ اس اہم مسئلے پہ توجہ دے۔ زمین کی خرید و فرخت کرتے وقت زرعی زمین کی اہمیت کو کسی صورت نظر انداز نا کیا جائے اور ایسے اصول و ضوابط بنائے جائیں کہ زرعی زمین کی خرید و فرخت سے اسکی پیداوار متاثر نا ہو اور ایسی زمین کو کمرشل مقاصد کیلیے استعمال نا کیا جائے ورنہ آنے والے سالوں میں غذائی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ ہمیں صرف آج کا نہیں کل کا بھی سوچنا ہے بحثیت قوم ہم اپنی آنے والی نسلوں کے محافظ اور امین ہیں۔ یہ وطن یہ سر زمین ہمارے پاس ہمارے آباؤ اجداد کی میراث اور آئندہ نسلوں کی امانت ہے لہذا اس زمین کی ہر طور حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ لہذا خوراک تو ایک طرف زمین کا یہ بحران کہیں ہمیں دو گز زمین سے بھی محروم نا کردے کہ اس دنیا کی مصیبتیں اور سختیاں سہنے کے بعد ہمیں اگلا ٹھکانہ بھی نا مل سکے۔ پچیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے باسیوں کیلیے اگر اپنا گھر ناگزیر ہے تو اچھی اور معیاری غذا بھی انکا بنیادی حق ہے اور اس کے لیے ہم سب کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے اپنے ذاتی مفادات ، کاروبار اور وقتی فائدے کو ایک طرف کر کے پوری قوم کے لیے سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کیلئے ایک ایسا وطن چھوڑ کے جائیں جو انہیں ایک محفوظ پناہ گاہ کے ساتھ اچھی خوراک اور صحت مند ماحول مہیا کر سکے۔