گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب سیّد محسن رضا نقوی نے بر صغیر کے عظیم روحانی پیشوا، وطن عزیزمیں چشتی سلسلے کے سب سے نمائندہ اور معتبر بزرگ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒکے مزارِ اقدس کی تعمیر و تزئین کے لیے 631 ملین کے وقیع منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا، جو گزشتہ رْبع صدی میں آستاں کی تعمیر و ترقی کے لیے کسی بھی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والی سب سے خطیر رقم ہے۔ دربار شریف کی طرف حاضری کے لیے جاتے ہوئے مہمان معظم کے کان میں سرگوشی ہوئی کہ معروف ہے کہ یہاںیک نکاتی تمنا و التجاء پذیرائی پاتی ہے، سیدزادہ مسکرایا اور قدموں کی رفتار مزید تیز ھوگئی۔ برصغیر کی جہانبانی اور جہانداری کی دنیا میں غیاث الدین بلبن، جس کا عہد " خیر الا عصار " یعنی بہترین دور کے نام سے معتبر ہوا، اپنے عہد جوانی میں سلطنتِ ہند اور تختِ دہلی کی تمنا دل میں پال بیٹھا۔ اس بے چینی کو تسکین دینے کے لیے حضرت بابا فریدؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، جن کے ساتھ وہ از حد عقیدت واخلاص کا تعلق رکھتا تھا۔ اس ملاقات اور حاضری کو حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیائؒ نے فوائد الفواد میں بھی بیان کیا کہ تیر ہویں صدی عیسوی کے وسط میں جب شہنشاہ ہندوستان سلطان ناصر الدین محمود دلی سے ملتان اور اوچ کی طرف ایک عظیم لشکر کے ساتھ بڑھ رہا تھا، تو ناصر الدین سمیت تمام لشکر کوپاکپتن ‘جو کہ ْاس وقت اجودھن تھا ،میں حضرت بابا صاحبؒکی حاضر ی کا اشتیاق ہوا، سلطان غیا ث الدین جو اْس وقت نائب مملکت تھا اور 'الغ خاں ' کے خطاب سے شہرت رکھتا تھا، نے سلطان ناصر الدین سے درخواست کی کہ ہمارا لشکر بہت بڑا ہے اور اجودھن کے راستے تکلیف دہ، نقصان کا اندیشہ ہے ، آپ اجازت دیں تو شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں آپ کی طرف سے حاضر ہو کر تحائف پیش کر کے آپ کے لیے دْعا کی درخواست کروں۔ غیاث الدین کے دل میں خیال تھا کہ اگر سطوت و سلطنت اس کے نصیب میں ہے اور تاج و تخت اس کو پہنچنے والا ہے تو اس بارے میں حضرت بابا صاحبؒ ضرور کچھ نہ کچھ اشارہ دے دیں گے چنانچہ سلطان ناصر الدین محمود کی اجازت پاکر، غیا ث الدین بلبن چار گاؤں کا فرمان اور خطیر چاندی ونقدی لے کر حضرت شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ سلام کے بعد نذر پیش کی ،حضرت الشیخ نے پوچھا یہ کیاہے؟ تو بلبن نے کہا یہ چار گاؤں کا فرمان ہے ۔(واضح رہے کہ ایک گائوں سے مراد کم ازکم 50 مربع اراضی ہے) اس گفتگو میں بلبن نے اپنے اطمینان کے لیے کوئی ایسا اشارہ نہ پایا، جس کے لیے وہ یہاں حاضر ہوا تھا، اور اپنے دل کی مراد جاننے کے لیے وہاں بیٹھا رہا تانکہ حضرت بابا صاحب کی زبان مبارک پہ یہ اشعار جاری ہوئے:۔ فریدونِ فرخ فرشتہ نبود ز عود و زعنبر سر شتہ نبود ز دادودہش یافت آں نیکوئی تو داد دہش کن فریدوں توئی یعنی:فریدون فرخ (ایران کا ایک نیک نام بادشاہ)فرشتہ نہ تھا، وہ مشک وعنبر سے بنا ہوا نہ تھا، اس نے اپنی سخاوت و دریا دلی سے نیک نامی پائی، تم سخاوت کرو تم ہی فریدون ہو۔ خوشخبری سن کر’’الغ‘‘بہت خوش ہوا۔ جھک کر حضرت بابا فریدؒ کے قدم چومے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی۔’’میں آپ کا خادم ہوں اور دعا کا محتاج ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا’’فریدوں توئی‘‘ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ سلطان ناصر الدین محمود کا انتقال ہو گیا۔ الغ خاں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھا۔لہٰذا سلطان کی وفات کے بعد الغ خاں، غیاث الدین بلبن کے نام سے تخت دہلی پر متمکن ہوا۔ میں پاکپتن جاتا ہوں،تو راستے میں تاریخ کے نقوش سے روشنی سمیٹتے ہوئے،آگے بڑھتا ہوں۔اجودھن حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی پاکیزہ نسبت سے پاکپتن بنا،لیکن اس کی اہمیت کی دوسری اہم وجہ،اسکی دفاعی پوزیشن تھی، اجودھن ملتان سے دہلی جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہونے کے سبب،دارالسلطنت سے براہِ راست منسلک تھا۔اس عہد میں منگولوں اور تاتاریوں نے باربار ہندوستان پر حملے کیے،ان حملوں کا راستہ یہی تھا،لہٰذا تختِ دہلی کو منگولوں کی دست بْرد سے محفوظ رکھنے کیلیے،سلاطین دہلی نے ہمیشہ پاکپتن اور دیپالپور کی دفاعی لائن کو اہمیت دی،جس کے لیے غیاث الدین بلبن کی’’ڈیفنس پالیسی‘‘انتہائی اہمیت کی حامل ہے،جو دراصل اس خطّے کو منگولوں کی دست بْرد سے محفوظ رکھنے کیلیے بنائی گئی تھی،بلبن کا حقیقی کارنامہ بھی یہی تھا،کہ اْس نے تختِ دہلی کو منگولوں کی وحشت و بربریت سے بچایا۔درحقیقت تیرھویں صدی میں منگولوں نے بطورِ خاص اسلامی دنیا کو نہایت بْرے طریقے سے تباہ و برباد اور تاخت و تاراج کیا۔غزنہ،ایران،خراسان کی پائمالی کے بعد یہ وحشی قبائل ہلاکو خان کی سرکردگی میں،برصغیر پر قبضے کا منصوبہ بنا رہے تھے،جس کے تدارک کے لیے بلبن نے ’’شمال مغربی سرحدی پالیسی‘‘اختیار کی ، جس کی بناء پر منگولوں کو مغربی پنجاب سے ہی پسپا ہونا پڑا۔ بلبن نے شمال مغربی سرحد کیساتھ قلعہ بندی کی،تاکہ منگولوں کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے،جس کیلیے اْس نے تین دفاعی لائنیں بنائیں،پہلی دفاعی لائن اوچ اور ملتان جبکہ دوسری اجودھن یعنی پاکپتن اوردیپالپور اور تیسری سامانہ اور ہانسی تھی۔جسکا بنیادی مقصدمنگولوں کو پایہ تخت دہلی سے دور رکھنا تھا،جس کیلیے ایک کے بعد دوسری مزاحمت اور دفاعی حصار کا مستعد رکھا گیا۔ منگول اگرچہ بار بار ملتان پر حملہ کرتے جبکہ دوسری طرف لاہور بھی انکی دست بْرد سے محفوظ نہ رہ پاتا،لیکن دیپالپور اور پاکپتن کی مضبوط ڈیفنس لائن سلطنتِ دہلی کی بقا اور سلامتی کے ضامن کے طور پر معتبر رہی۔ہندوستانی سلاطین کے اس عہد میں،پنجاب۔۔۔سیاسی اور فوجی لحاظ سے سلطنتِ دہلی کا سب سے بڑا صوبہ تھا،پنجاب کا گورنر جس کا صدر مقام دیپال پور ہوتا،سیاسی لحاظ سے سلطان کے بعد، دوسری مقتدر حیثیت کا حامل تھا،چنانچہ ابتلائ،بحران اور انتشار کے ہر مرحلے اور ہر دور میں،دیپالپور کے گورنر نے ہی سلطنت دہلی کے استحکام کیلیے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ،ہندوستان میں مسلم اقتدار کو محفوظ اور مستحکم رکھا۔ خلجی خاندان کے زوال کے وقت دیپالپور کا گورنر غازی ملک آگے بڑھا اور اْس نے دہلی کی عنان حکومت سنبھالی، اسی طرح تغلق خاندان کے رْو بہ زوال ہونے پر دیپالپور کے گورنر خضر خاں نے تختِ دہلی پر قبضہ کیا۔بہلول لودھی نے جب لودھی خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھی تو وہ بھی اس وقت دیپالپور ہی کا گورنر تھا،اور پھر اسی خاندان کے آخری تاجدار ابراہیم لودھی کے دور میں دیپالپور کے گورنر دولت خان لودھی ہی نے کابل کے حکمران ظہیر الدین بابر کو ہندوستان پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی،جسکا سبب دولت خاں لودھی اور سلطان ابراہیم لودھی کے تعلقات کی کشیدگی تھی۔اس صوبے اور خطّے کی مرکزیت کا دراصل اہم سبب حضرت بابا فرید الدینؒ کی شخصیت اور روحانی حیثیت تھی،جہاں سے یہ حکمران فیض پاتے۔