اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت تحریک انصاف پر کڑا وقت چل رہا ہے، تمام قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں کہ تحریک انصاف کی اندر کھاتے ڈیل ہو چکی ہے، یا اسے دوبارہ آشیرباد حاصل ہو جائے گا۔ اُن پر روزانہ کی بنیاد پر نئے مقدمات بن رہے ہیں، جو کیا اُس کا مقدمہ تو ٹھیک ، مگر جو نہیں کیا اُس کا بھی سارا ملبہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک طرف مگر میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ آج بھی پوری قوم یہی سمجھتی ہے کہ عمران خان ایک ایماندار شخصیت ہیں، جن پراقتدارسنبھالنے سے پہلے اورآج تک کرپشن کا الزام نہیں لگاتھا۔ نہ تو اُن پر بطور کرکٹر کہیں سے پیسے لینے ، سپاٹ فکسنگ کرنے یا جوا کھیلنے کا الزام لگا اور نہ ہی بطور سیاستدان اُن پر 27سالہ کیرئیر میں ایک بھی کرپشن کے حوالے سے مقدمہ درج ہوا۔ لیکن جب سے وہ اقتدار میں آئے اور الگ ہوئے، اُن پر بے شمار مقدمات درج ہوئے ہیں،جن میں توشہ خانہ کیس یاممنوعہ فنڈنگ کیس نمایا ں رہے۔ لیکن عوام نے اُن کیسز کو بری طرح مستردکر دیا۔ حالیہ (القادر ٹرسٹ کیس) ایسا کیس ہے جس میں تحریک انصاف کی جانب سے کئی ایک غلطیاں سرزد ہو ئی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں۔ جیسے تحریک انصاف خاص طور پر عمران خان اس حوالے سے بھرپور کانفرنس نہیں کررہے۔ جس میں سوال و جواب کا بھرپور سیشن رکھا جائے تاکہ قوم کلیئر ہو کہ عمران خان نے اس کیس میں بھی کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی۔ اگر وہ اس پر وضاحت نہیں دیں گے تو یقینا مجھ جیسے جو تبدیلی کا نعرہ لیے خان صاحب کے ساتھ تھے، اُنہیں سخت مایوسی ہوگی(ہم لوگوں نے بھی خان صاحب کا ساتھ اسی لیے دیا تھا کہ وہ روایتی سیاستدانوں سے ہٹ کر کرپٹ نہیں ہیں، نہ اُن کے ذاتی کاروبار ہیں، اور نہ ہی اُنہیں مال بٹورنے کی ہوس ہے)۔ القادر ٹرسٹ کیس کی بات کریں تو ابھی تک کی اطلاعات اور معمولی تحقیق کے بعد ہم اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عمران خان صاحب کو اس پر یا تو وضاحت دینا ہوگی یا اُنہیں اس پر قوم سے معافی مانگنا ہوگی۔ لیکن صرف یہی کہہ دینا کہ میں نے ان پیسوں سے کونسا کوئی غلط کام کیا ہے، بلکہ ایک یونیورسٹی بنائی ہے تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چوری کے پیسے سے مسجد بنادیں اور توقع کریں کہ اس کا ثواب آپ اور آپ کے مرحوم والدین تک پہنچے گا تو یہ غلط ہے۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق ’’القادر ٹرسٹ‘‘ بالکل اُسی طرح بنایا گیا جس طرح ہمارے روایتی سیاستدان راتوں رات کمپنی بناتے، اُس کمپنی کے نام پر بنکوں سے قرضہ لیتے اور اگلے چند سالوں میں قرضہ معاف بھی کروا لیتے ہیں۔ القادر ٹرسٹ کیس میں قرضہ تو نہیں لیا گیا مگر خان صاحب کا کوئی مشیر بھی پرانا ’’وارداتیا‘‘ لگ رہا ہے جس نے خان صاحب کو مشورہ دیا اور حکومت میں آنے کے بعد اُسی سال یعنی 2018ء کے اواخر میں ’’القادر ٹرسٹ ‘‘ رجسٹرڈ کروایا اور 5مئی 2019کو القادر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا(جس کا کچھ حصہ ابھی بھی زیر تعمیر ہے)۔ ویسے تو یہ خان صاحب کے دیگر پراجیکٹس شوکت خانم، نمل یونیورسٹی وغیرہ کی طرح شاندار پراجیکٹ ہے جو اس وقت اسلام آباد کے قریب سوہاوہ(جہلم) میں واقع ہے۔ یہ منصوبہ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کا حصہ ہے۔ اس کا نام بھی اللہ کے ناموں میں سے ہی رکھا گیا ہے۔ یہ یونیورسٹی خالص اسلامی تعلیمات کے لیے بنائی گئی ہے ۔ اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جائے گی بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جاتے ہیںجو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد طلبہ کے ساتھ ہوتے ہیں بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کرتے ہیں۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کیا گیا ہے جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔ یہ ساری باتیں ایک طرف مگر اب آ جائیں نیب میں اس وقت زیر تفتیش القادر ٹرسٹ کیس کی طرف۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کو برطانیہ میں موجود نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) جو منی لانڈرنگ اور برطانیہ و بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرتی ہے، اسی قسم کا ایک کیس اس ایجنسی کے پاس چل رہا تھا جسے وہ 2019ء میں ہار گئے ۔ کیس ہارگئے، یا پیچھے ہٹ گئے یا تصفیہ کر لیا ، جس کے بعد پراپرٹی ٹائیکون نے 190ملین پائونڈ جن کی مالیت اُس وقت 50ارب روپے کے قریب بنتی تھی، پاکستان کی حکومت کو ادا کرنا تھے۔ رقم پاکستان آئی تو یہاں کے کرتا دھرتا اُس وقت خان صاحب کے بطور وزیر اعظم معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر تھے ، جن کی انٹری نے شکوک پیدا کیے۔ اور اب یہاں ملک صاحب کی فائلوں کو ’’پہیے‘‘ لگنے کا کام بھی شروع ہوتا ہے۔ بادی النظر میں انہوں نے بھی اپنے پتے کھیلے اور فائلوں کو آگے چلانا شروع کردیا۔ جب آپ فائلوں کو آگے چلاتے ہیں تو یقینا آپ کو سب کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر مذکورہ رقم یعنی 50ارب روپے پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں۔اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم مذکورہ شخصیت کو سپریم کورٹ میں ادائیگی کے لیے دے دی گئی۔اور اس اہم کام کے بدلے میں خان صاحب اور بشریٰ بی بی کے ٹرسٹ کو سینکڑوں کینال پراپرٹی الاٹ کی گئی۔ لہٰذامسئلہ یہاں یہ بھی ہے کہ تمام اداروں کے اس پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف کیس کرنے یا بات کرنے سے اُن کے پر جلتے ہیں۔ سب کے علم میں ہے کہ لاہور کا بلاول ہائوس کہاں سے آیا اور کس نے تحفہ دیا۔ لیکن دوسری جانب اس کیس میں نیب نے خان صاحب کو 20نکات پر مشتمل ایک سوالنامہ دیا ہے جس کے جواب میں خان صاحب نے نیب کو لکھا ہے کہ تمام الزامات بالکل جھوٹے، غیر سنجیدہ، من گھڑت، قانون اور حقائق کے بارے میں جان بوجھ کر غلط فہمی اور بے بنیاد قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔اس کیس کی انکوائری اور تفتیش شروع کرنے کا پورا مقصد سیاسی انتقام ہے۔جبکہ خان صاحب اس حوالے سے بھی انکاری ہیں کہ اُن کے پاس ٹرسٹ کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ یہ تمام ریکارڈ متعلقہ محکموں کے پاس ہوگا وغیرہ ۔ بہرکیف جس طرح میں نے کالم کے آغاز میں کہا تھا کہ خان صاحب پر اقتدار میں آنے سے پہلے کرپشن کے چارجز نہیں لگے تھے لیکن اب القادر ٹرسٹ کیس کو لے کر مجھ جیسے بہت سے سنجیدہ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ اس قدر تعمیری پراجیکٹ پر کیسے قدغن لگ سکتی ہے جو اس وقت قوم کی تعمیر نو کرنے میں مصروف ہے۔ لہٰذااس حوالے سے خان صاحب کو چاہیے کہ وہ بذات خود میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں اور ابہام کو دور کریں تاکہ اُن کی شخصیت پر برا اثر نہ پڑے۔ بلکہ اگر اُن سے اس معاملے میں کہیں غلطی بھی ہوئی ہے تو اس کا اعتراف کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے سے معاملات اُلجھیں گے نہیں بلکہ سلجھ جائیں گے اور رہی بات اُن کے ’’جیالوں‘‘ کی تو وہ یقینا ہمہ وقت ہمیشہ کی طرح ساتھ ہی رہیں گے، وہ کہیں نہیں جانے والے!