اخباروں میں بڑی زبر دست خبریں ہیںکہ تحریک انصاف کے پچیس لیڈر آج پارٹی چھوڑ گئے۔اگلے دن پتہ چلتا ہے کہ مزید تیس چھوڑ گئے ہیں۔ یہ اب روز کی بات ہے ۔ پتہ نہیں رانی کھیت کی بیماری کا شکار تحریک انصاف کیوں ہو گئی ہے۔سیاسی عمل میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ سیاسی ورکر کے لئے اس کا نظریہ تو ایمان کی طرح ہوتا ہے اور کسی سے اس کا ایمان چھن جانایاچھین لینا کس قدر کرب ناک کام ہے، اس کا اندازہ ابن الوقتوں کو نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے ۔ جانے والے ہنستے ہوئے روتے ہیں یا روتے ہوئے ہنستے ہیں۔ یہ کام کروانے والے کیسے کرتے اور کیوں کرتے ہیں، یہ اندازہ تو کوئی نہیں کر سکتا مگر کیا کریں میرے جیسے سارے لوگ محسوس تو کرتے ہیں ، بے حس نہیں ۔ ان کا احساس ان کے درد کو سوا کر دیتا ہے۔میرا یا میرے جیسے لوگوں کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں مگر جو ہو رہا ہے وہ شاید ایک اور خونی انقلاب کا طلبگار ہے ۔ کسی نئے رہبر کی راہ دیکھ رہا ہے۔جسے بہر حال آنا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب حالات اتنے برے ہوں تو ہاتھ سے گانٹھیں لگانے والوں کو وہی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ لوگ اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔ میڈیا خوشخبریاں سنا رہا ہے کہ ایک نئی تحریک انصاف جنم لے رہی ہے۔جس کا نام تو تحریک انصاف نہیں ہو گا، وہ اپنا نام جو بھی رکھیں۔ مگر انہی پرانے چہروں کے ساتھ بغیر کسی شرمساری لوگ وہی ہونگے۔ایک ایسی نئی پارٹی جس کی بنیاد بھی بہت ہنگامی ہے۔مار دھاڑ سے بھر پور ایک نئی پارٹی۔جس میں جوذاتی طور پر جتنا برا ہو گا اسے اپنی پرانی پارٹی میں اسی قدر برائیاں نظر آئیں گی۔عوام چند ماہ یا چنددن ان کے جلوے دیکھیں گے۔اپنی حالت پہ مگر روتے رہیں گے کہ عوام کا کام رونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہم عام لوگ تو مدت سے تماشے ہی دیکھتے آئے ہیں ، اک تماشہ اور سہی۔نئے عہدیداروں کو مبارک باد کہ چلیں کچھ لوگ جن کی لیڈری بیچاری ضائع ہو رہی تھی ایک بار پھر ہمارے لیڈر شمار ہونگے چاہے وقتی سہی لیکن یاد رکھیں کہ صفر جتنے بھی اکٹھے ہوں یا اکھٹے کر لئے جائیںان کا مجموعہ صفر ہی رہتا ہے۔اب ان لیڈروں کے ساتھ نیک نامی نہیں کچھ بدنامی بھی ان کی زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ لیکن وہ جنہیں اس چیز کا شوق ہے وہ پورا کر لیں۔ فواد چوہدری کل تک تحریک انصاف کے ایک بڑے بلکہ بہت بڑے لیڈر تھے۔ پھر یکا یک راتوں رات وہ پارٹی چھوڑ گئے۔ ماشا اﷲوہ اس قدر مقبول ہیں کہ کسی نئی پارٹی نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔کم بختوں نے بیچارے کی عدت بھی پورا ہونے نہیں دی۔ لیکن سنا ہے تحریک انصاف میں بھی وہ بغیر نکاح ہی کے تھے۔ نئے لوگوں نے بھی انہیں بغیر نکاح ہی اپنا لیا ہے تو میرے جیسے کسی قاضی کو کیا اعتراض۔ بیچاروں کی ذاتی حیثیت تو ایسی خاص نہیں ہوتی۔ لیڈر ہی کی وجہ سے وہ مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ فواد چوہدری ہی نہیں سبھی اگلے الیکشن میں اپنی اصلیت سے واقف ہو جائیں گے۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ کچھ قابل اعتراض بات نہ ہو جائے اس لئے چپ رہنا ہی بہتر ہے،خصوصاً فواد چوہدری صاحب برا منا جائیں گے۔ آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے ۔ الیکشن کی مہم شروع تھی۔ مجھے اپنے ایک عزیز کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے دفتر جانا پڑا۔ وہیں ایک آفیسر کے کمرے میں بیٹھے میری ایک خاتون وکیل سے ملا قات ہوئی ۔پوچھنے لگیں آپ سیاست کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ میں نے ہنس کر جواب دیا کہ بہت کم ۔ کہنے لگیں چلیں اتنا بتا دیں کہ میں خاتون نشست کے لئے کس پارٹی کا ٹکٹ لوں کہ کامیاب ہو جائوں۔انہوں نے دو پارٹیوں کے نام بتائے ، میں نے اس وقت کی مقبول پارٹی کا مشورہ دیا اور پوچھا کہ آپ میں کیا خوبی ہے کہ آپ کو یقین ہے کہ دونوں پارٹیوں میں جس کا چاہیں ٹکٹ لے سکیں گی۔کہنے لگیں دونوں کے سربراہوں سے میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں میں جرات نہیں کہ مجھے انکار کر سکیں۔ سیاست کا یہ معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ میرے وہ ساتھی جن کا مضمون پولیٹیکل سائنس ہے اور جو خود کو پیدائشی سیاستدان سمجھتے ہیں، دنیا جہاں کی سیاست پر بات کر لیتے ہیں۔ اپنے تجزیے اور تبصرے بھی بڑی بے باکی سے کرتے ہیں لیکن جب پاکستانی سیاست کی بات ہوتی ہے تو کیا کہیں ، ہنس دیتے ہیں۔اس لئے کہ یہاں سیاست کے نام پر بہت کچھ ہوتا ہے مگر سیاست نہیں ہوتی۔یہاں جمہوریت کے نام پر بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر جمہوریت کبھی نظر نہیں آتی۔یہاں منافقت کے پردے میں سچائی کا پرچار ہوتا ہے ،مگر سچائی ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتی۔ یہ سب کام چند اشخاص یا چند گروہوں ہی سے منسوب نہیں ہم من حیث القوم کرپٹ ہیں۔ اور یہ خوبی ہماری سیاست کا ایک اچھا وصف شمار ہوتا ہے۔سیاست میں کرپٹ ہونا تو بر ائی تصور ہی نہیں ہوتا۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس ملک میں کون بد بخت ہے جو شہدا کی عظمت سے واقف نہیں۔ ان کی قربانیوں کا اقرار نہیں کرتا۔ ان کی یادگاروں کا احترام نہیں کرتا۔فوج کے بغیر یہ ملک اور اس ملک کا ہر شہری غیر محفوظ ہیں۔ فوج ملک کی لازمی ضرورت ہے۔ مگر مجھے جو بات سمجھ نہیں آتی کہ چوبیس گھنٹے کی جیل یاترا کے بعد ان لیڈروں کو پتہ چلتا ہے کہ سب تخریب کی آبیاری ان کے سامنے زمان پارک میں ہوئی تھی۔ آپ کے سامنے اگر ایسا کچھ ہو رہا تھا تو آپ بہت بے حس ہیں ۔آپ نے احتجاج بھی نہیں کیا۔ سیاست کی یہ روش انتہائی گھٹیا شمار ہوتی ہے۔ یہ جان لیں کہ اصل حکمران اور بادشاہوں کا بادشاہ تو اوپر بیٹھا ہے اور اس کے کھیل ہی اصل ہیں جن سے کوئی مجرم چاہے وہ کتنا ہی فنکار کیوں نہ ہو، بچ نہیں پاتا۔ میں ابھی ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں ایک انتہائی قابل غور فقرہ لکھا تھا جو کچھ یوں تھا،’’شاہ اپنے محل میں بیٹھا بڑے عالیشان منصوبے بنا رہا ہے اس سے بے خبر کہ ٹھیک اسی لمحے کسی جھونپڑی میں کسی دست کار کی انگلیوں نے اس کا کفن بننا شروع کر دیا ہوتا ہے‘‘۔