10 اپریل 2023 کو موجودہ دستور کو پچاس سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس اعتبار سے یہ دستور گزشتہ دو دساتیر 1956 ( مدت نفاذ تقریبا ڈھائی سال) اور 1962 (مدت نفاذ تقریبا سات سال ) کے مقابلے میں سخت جان ثابت ہوا کہ اس نے اپنے نفاذ کے( جیسے تیسے ہی سہی ) پچاس سال مکمل کرلئے ہیں اگرچہ ان پچاس سالوں کی سیاسی اور دستوری تاریخ کا سفر کچھ قابل رشک نہیں رہا ۔سیاست دانوں اور مقتدر اسٹیبلشمنٹ نے اس ریاستی صحیفے کو جب چاہا اور جیسے چاہا اپنے مفادات اور مرضی کے مطابق استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ رہا کہ نہ تو ریاست کی وفاقی ہیئت مستحکم ہو سکی اور نہ ہی پارلیمانی جمہوری حکومتوں کو قرارآسکا۔ ادارے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ان کے مابین اختیارات کی حد امتیاز بھی دستور فراہم کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دستور سازی کسی بھی قوم اور ریاست کے لئے سب سے کٹھن مرحلہ سمجھا گیا ہے ۔اس کی ترتیب و تدوین کے دوران مختلف سیاسی نظریات کی موجودگی ، گروہی اور علاقائی مفادات کا افتراق اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی نوعیت شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہے جیسا کہ پاکستان کے پہلے دستور کی تدوین میں دیکھنے میں آیا جب اس وقت کی سیاسی قیادت نے اس میں نو سال لگادئیے اس کے باوجود وہ دستور ریاست کو سیاسی استحکام دینے میں ناکام رہا اور محض ڈھائی سال اس کی مدت نفاذ رہی۔ موجودہ دستور ، جسے اس وقت کی دستور ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر 10 اپریل 1973 کو منظور کیا اور جس کا با ضابطہ نفاذ 14 اگست 1973 کو ہوا، اس سال اپنے نفاذکے پچاس سال مکمل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ 1973کا یہ دستور جن حالات میں مدون کیا گیا وہ بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے کٹھن اور مشکل دور تھا ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے نہ صرف ریاست کے جغرافیہ کو بدل کر رکھ دیا تھا بلکہ اس کا سیاسی مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا تھا ۔تاہم اس وقت کی قیادت نے سیاسی دانائی اور معاملہ فہمی کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہوئے باقی ماندہ پاکستان کے لئے ایک متفقہ دستور کو منظور کیا اس کی تیاری میں جہاں اس وقت کی اپوزیشن نے بھرپور تعاون کیا وہاں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں حکمران سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قوم کو ایک متفقہ دستور دینے میں کامیابی حاصل کی۔ دستور کے قابل عمل نفاذ کے لئے دو ادارے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیںایک منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ اور دوسرا ایک آزاد اور با اختیار عدلیہ کی فعالیت۔ اب اگر گزشتہ پچاس سال کی دستوری تاریخ کا اس تناظر میں تجزیہ کیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ دونوں ادارے اپنی کارکردگی کے لحاظ سے دستور کے پشتیبان نہیں بن سکے۔دستور کے نفاذ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی جو پارلیمانی حکومت قائم ہوئی وہ محض بمشکل چار سال ہی مکمل کر سکی۔ ( 14 اگست 1973 سے 5 جولائی 1977) دستور میں دیئے گئے تمام تحفظات کے باوجو د فوج نے سیاسی نظام کو سمیٹتے ہوئے 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔ دستور معطل کردیا گیا ۔مارشل لاء حکومت آٹھ سال تک بلا شرکت عوام اقتدار پر براجمان رہی۔ 1985میں بعد از اطمینان مثبت نتائج غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ مشروط و محدود سیاسی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ اسمبلی کے توسط سے ماشل لاء حکومت کے اقدامات کو دستوری تحفظ مل سکے مزید یہ کہ اسمبلی سے آٹھویں ترمیم کے ذریعہ دستور کی پارلیمانی حیثیت کو کمزور کرتے ہوئے نیم پارلیمانی اور نیم صدارتی طرز کا سیاسی نظام متعارف کرادیا گیا ۔ دستور کی بنیادی حیثیت کی یہ تبدیلی سیاسی اور عدالتی سطح پر بغیر کسی مزاحمت کے عمل میں آگئی۔یہ نظام بھی بمشکل تین سال ہی چل سکا ۔صدر مملکت جو فوج کے سربراہ بھی تھے اپنے اقتدار میں سیاسی حکومت کی شرکت کو مزیدید برداشت نہیں کرسکے ۔اور مئی 1988میں صدارتی منصب میں مرتکز اختیارات کے تحت سیاسی حکومت کو برطرف کردیا۔اس سے پہلے کہ صدر مملکت اپنے کسی نئے منصوبے کو بروئے عمل لاتے اگست 1988 میں ایک حادثاتی موت کے باعث اپنے سارے مناصب اور اس میں مرتکز سارے اختیارات سے محروم ہوگئے ۔ آٹھویں ترمیم کی موجودگی نے صدر کو اسمبلی برخواست کرنے کا جو صوابدیدی اختیار تفویض کیا تھا اس کا نتیجہ یہ رہا کہ 1988سے 1993کے دوران تین بار یہ اختیار استعمال ہوا جس کے باعث پارلیمانی نظام اپنی ساخت اور شناخت کے اعتبار سے مسلسل کمزور رہا ۔اس دوران سیاست دان بھی صدر کے اس اختیار کے استعمال سے سیاسی فائدے لیتے رہے۔آخر 1997میں نواز شریف اور بے نظیر کے مابین مفاہمت سے دستور میں تیرہویں ترمیم کے ذریعہ صدر کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کرتے ہوئے دستور کی پارلیمانی ہیئت کو بحال کردیا گیا اور یہ گمان کیا جانے لگا کہ اب سیاسی حکومتیں بغیر کسی خوف و خطر اپنی مدت کو پورا کرسکینگی مگر یہ خیال بھی خام ثابت ہوا جب اکتوبر 1999میں دو تہائی اکثریت کی حامل نواز شریف حکومت کو جنرل پرویزمشرف نے بر طرف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔ایک بار پھر نہ تو پارلیمنٹ اور نہ ہی عدلیہ دستور کا تحفظ کر سکی۔ ایک بار پھر دستور کی پارلیمانی حیثیت کو چھیڑا گیا اورسترہویں ترمیم کے ذریعہ صدر کے اختیارات میں حسب ضرورت اضافہ کرلیا گیا ۔دستور میں کی جانے والی اٹھارویں ترمیم نے دستور کی پارلیمانی حیثیت کو بحال کیا بلکہ صوبوں کو مزید اختیارات تفویض کرتے ہوئے ان کے دائرہ ء عمل میں اضافہ بھی کیا۔دستور کے ساتھ کھلواڑ کی یہ تاریخ دستور کی پچاس سالہ تاریخ کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔ اس دوران د ستور کے محافظ دو اداروں ،پارلیمنٹ اور عدلیہ کی کارکردگی کسی بھی طرح دستوری تقاضوں کے مطابق نہیں رہی ۔دستور میں موجود جمہوریت اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ دو ادارے اپنی ذمہ داریاں آئینی تقاضوں کے مطابق پورا نہ کررہے ہوں۔ 1973 کے دستور کا پچاس سالہ جشن ضرور منائیں مگر اس سے پہلے اس بات کو بھی یقینی بنائے جانے کی فکر بھی کی جانی چاہیئے کہ دستور میں موجود سیاسی اور جمہوری آزادی کی جو ضمانتیں شہریوں کو حاصل ہیں ان کو کیسے قابل عمل بنایا جائے۔ سیاسی نظام کو کس طرح عوامی مفاد کے مطابق مستحکم کیا جائے اور کیسے دستوری تقاضوں کو رو بہ عمل لایا جائے ۔ بد قسمتی یہ کہ ان پچاس سالوں میں عوام کے مفادات کے تحفظ میں نہ تو پارلیمنٹ نے خاطر خواہ قانون سازی کی اور نہ عدلیہ نے دستور میں موجود شہری حقوق کے تحفظ کے لئے اپنا آزادانہ کردار ادا کیا۔ حکومتیں سیاسی ہوں یا فوجی جب جب جسے موقع ملا اس نے حسب دلخواہ دستور کو اپنی مرضی اور ضرورت کے تحت تبدیل کیا ۔اس مملکت کے ساتھ بائیس کروڑ عوام نے جو امیدیں قائم کر رکھی ہیں جو خواب آنے والے کل کے لئے ان کی آنکھوں میں میں سجے ہیں انہیں پورا کرنے کا یقین جب تک ان اداروں کی جانب سے نہیں دلایا جاتا اس وقت تک محض اس بات کا جشن منالینا کہ دستور نے جیسے تیسے بس پچاس سال پورے کرلئے ہیں ۔کافی نہیں ہے ۔