خطبہ حجتہ الوداع رہتی دنیا تک انسانی حقوق کے تحفظ کی ابدی دستاویز ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے 10 ہجری کو خطبہ حجتہ الوداع ارشاد فرمایا۔ اس خطبے کا حرف حرف انسانیت کے لیے روشنی اور رہنمائی ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلے ہوئے یہ روشن الفاظ پڑھتے ہوئے یہ خیال دامن گیر رہا کہ ہماری بدعملی اور بدبختی کہ ہم روشنی اور رہنمائی کے اس ابدی منبع سے اپنی زندگیاں، اپنے گھر، اپنا معاشرہ ،اپنی روح اس طرح مزین و منور نہ کرسکے ۔ خطبہ حجتہ الوداع ارشاد فرمانے کے تقریبا تین ماہ کے بعد رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری طور پر دنیا سے پردہ فرماگئے تھے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم گویا جان چکے تھے کہ ان کی ظاہری زندگی دنیا میں اب کم رہ گئی ہے۔انہیں یہ فکر لاحق تھی کہ وہ اللہ کے پیغام کو صاف صاف اور واضح انداز میں دنیا تک پہنچا دیں،حالانکہ نبوت کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زندگی اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے میں ہی گزری۔لیکن حج کے موقع پر پہلی بار مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع موجود تھا ، سوا لاکھ کے قریب مسلمان اللہ کے آخری نبی ﷺکی بات سننے کے لیے عرفات کے میدان میں جمع تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور سامنے مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، آپﷺ نے اپنی بات سوا لاکھ مسلمانوں تک پہنچانی تھی۔اس زمانے میں کوئی لاؤڈ سپیکر توتھے نہیں۔اس کا حل یہ نکالا گیا کہ آپ جو ارشاد فرماتے مجمع میں موجود مسلمان آپ کے کہے ہوئے الفاظ دہراتے ۔اس طرح یہ سلسلہ چلتا اور دہراتے دہراتے بات مجمع کے آخر تک بات پہنچا دیتے۔یہ بھی ایک معجزہ ہے ۔ حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، وہ انسانی حقوق کے تحفظ کی ؎عالمی اور ابدی دستاویز ہے۔اللہ کے آخری نبی کا پیغام صرف مسلمانوں کے نام نہیں بلکہ رہتی دنیا تک آنے والے تمام انسانوں کے نام ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع میں ایک دفعہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے اے مسلمانو! نہیں کہا، بلکہ ہر بار اے لوگو! کے الفاظ استعمال کیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔ پہلا خطبہ 9 ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں دوسرا 10 ذلحج کو منی میںاور تیسرا خطبہ گیارہ یا بارہ ذی الحجہ کو منی میں ارشاد فرمایا۔لیکن خطبہ حجتہ الوداع نو ذی الحجہ کو عرفات کے میدان میں ارشاد کئے جانے والے خطبہ کو کہا جاتا ہے۔ آپﷺ نے خطبے کا اغاز کرتے ہوئے فرمایا ۔سب تعریف اللہ کے لیے ہے،ہم اسی کی عبادت کرتے اور اسی کے دامن عفو میں اپنے نفس کی شرارتوں اور برے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں۔پھر فرمایا لوگو میری بات اچھی طرح سن لو سمجھ لو کیا خبر اس سال کے بعد اس جگہ صبح تمھاری مجھ سے ملاقات نہ ہوسکے۔ اس بات کو بار بار دہرایا اور کہا سنو میں تمہیں وضاحت کے ساتھ سب کچھ بتا دینا چاہتا ہوں کہ شاید اس سال کے بعد پھر کبھی تم سے نہ مل سکوں۔خطبے کے چیدہ چیدہ روشن نکات پڑھیے اور روح سرشار کیجئے۔ آپ ﷺنے فرمایاکس عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔جس کو اللہ ہدایت عطا کرے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔جان لو کہ جاہلیت کی ہر شے میرے قدموں تلے روند دی گئی ہے۔اس بات کوآپ ﷺنے دو تین بار دہرایا۔ہر قسم کا سود آج ممنوع قرار پاتا ہے۔تمھارا خون ایک دوسرے پرحرام ہے۔تمھاری عزت آبرو تم،ھاری کھال بھی ایک دوسرے کے لیے محترم ہے۔جس طرح اس دن اور اس مہینے کو حرمت حاصل ہے۔خبردار ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا۔ہرمومن دوسرے مومن کے لئے محترم ہے۔ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان تو وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔مومن تو وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان کا مال اور عزتامن میں رہے۔ مجاہد تو دراصل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے نفس کا مقابلہ کرے۔خبردار اگر کسی نے کسی پاس امانت رکھوائی تو وہ اس بات کا پابند ہے کی وہ امانت رکھوانے والے کو اس کی امانت واپس لوٹائے۔ کتاب اللہ کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہی میں نہیں پڑوگے۔قرض واپس ادائیگی کا متقاضی ہے۔عطیہ لوٹایا جائے۔خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا،اب نہ باپ کے جرم کا بدلہبیٹے سے لیا جائے گا نہ بیٹے کا جرم باپ پر ڈالا جائے گا۔ عورتوں کے بارے میں اپنے رب سے ڈرو کہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔خبردار تمھارے لیے عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت ہے کیونکہ وہ تمھاری پابند ہیں۔لوگو !اسی طرح عورتوں پر بھی تمھارے کچھ حقوق واجب ہیں۔ وہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور تمھارا بستر کسی ایسے شخص سے پامال نہ کریں جسے تم پسند نہیں کرتے۔اور گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل نہ ہونے دیں جسے تم نا پسند کرتے ہو۔ جو تمھارے غلام ہیں ان سے حسن سلوک کرو جو تم کھاتے ہو انکو کھلاو جو تم پہنتے ہو ان کو پہناؤ۔نماز پنج گانہ ادا کرو اور زکوۃٰ خوشی سے ادا کرو۔ چوری نہ کرو اللہ سے ڈرتے رہو،اللہ کی عبادت کرو، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ ہی تمھارے بعد کوئی اور امت آئے گی ۔لوگوں کا گواہ رہنا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا۔ اس کا جواب مجمع نے دیا اور کہا آپ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا ،بلاشبہ آپﷺ نے حق رسالت ادا کردیا۔دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ حضور نبی کریم ﷺکے ہم نے انسانیت کے نام بالعموم اور مسلمانوں کے نام بالخصوص اس آخری پیغام کو اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں میں کتنی جگہ دی؟ہماری سیاست ،معاشرت ،معیشت، کاروبار، آپس کے لین دین اورہماری عائلی زندگیوں میں اس روشن رہنمائی کی جھلک کتنی اور کس قدر ہے ؟دل پر ہاتھ رکھ کے سوچیں۔کہ حضور ختمی مرتبتﷺ نے تو حق رسالت ادا کردیا امت نے کیا کیا ؟