اشک گردوں صدف میں پالتے ہیں تب سمندر گہر اچھالتے ہیں خود فراموشیاں نہ پوچھ اپنی زندگی کا عذاب ٹالتے ہیں آج ایک بے کلی سی ہے طبیعت مکدر اور بوجھل ہے۔ یوں تو قدرت کے مظاہر ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں او ربعض اوقات اچانک کوئی خبر آپ کو سن کر دیتی ہے اور آپ کے اندر کا موسم متغیر ہو کر فشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ آپ کے پاس اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہوتے کبھی کبھی اوپر نیچے ایسی باتیں ہو جاتی ہیں کہ آپ چکر اجاتے ہیں کہ جیسے ایک زخم مندمل نہ ہو تو دوسرا آن لگے یا جہاں درد کا احساس ہو اور وہیں ایک چوٹ اور آن لگے۔ ایک تو ویسے ہی ملک کے نامساعد حالات نے ہمیں پریشان کر رکھا ہے اس پر کوئی حادثہ یا المیہ۔ عدیم نے کہا تھا: غم کی دکان کھول کے یٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر ایسی صورت حال میں تو کورونا کا خوف بھی پیچھے رہ گئیا کہ اس میں تو کوئی بیمار ہوتا ہے اور پھر اس سے بچنے کی بندہ تدبیر کرتا ہے اور نوے فیصد بچ جانے کے چانس ہوتے ہیں اللہ کرم کردیتا ہے۔ وہاں انسان کس کو دوش دے کہ جہاں محافظ ہی آپ کے سینے میں گولیاں اتار دیں۔ ابھی تو ہم اسامہ کے دانستہ قتل کے غم میں مبتلا تھے کہ ہزارہ کے بدقسمت کان کن جنہیں پہاڑوں میں لے جا کر اور ہاتھ پائوں باندھ کر بے دردی سے بھون دیا گیا۔ لوگوں کو خون کے آنسو رلا گئے اور یہ واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی قارئین کو یاد ہوگا کہ وہ دھرنے دے چکے ہیں اور اس سانحہ مچھ پر حکومت سے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ کوئٹہ دھرنا وزیراعظم کے آنے تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ آپ دس لاکھ وفاق اور 15 لاکھ بلوچستان حکومت کی طرف سے فی کس دے کر انہیں مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ گھائو بہت گہرا ہے‘ مندمل ہونے والا نہیں۔ اسامہ کے قتل کا سانحہ بھی معمولی نہیں اور اس پر طلبہ نے تحریک شروع کردی ہے۔ لوگوں کو واقعتاً باہر نکلنا پڑے گا کہ ساہیوال کا سانحہ ابھی سب کے دلوں میں تازہ ہے کہ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو انسداد دہشت گردی والوں نے مارا تھا: کیا ضروری ہے کہ تم پر بھی قیامت ٹوٹے کیا یہ کافی نہیں احباب لیے جاتے ہیں لوگ کہاں جائیں؟ وہ حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ ریاست کی ذمہ داری لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہے او رخاص طور پر انسداد دہشت گردی والوں کو تو تمام سہولتوں کے ساتھ نوازا جاتا ہے مگر یہ کیا کہ آپ کلنگ الائنس اپنے پاس متصور کرلیں اور ذرا سی ذاتی رنجش پر کسی کی سرعام جان لے لیں۔ والدین کے نور نظر لخت جگر اور پیارا بیٹے اسامہ نے کیا بگاڑا تھا ۔ اس عمر میں بچے ذرا سے لاڈلے اور اکھڑ بھی ہوتے ہیں‘ کچھ تلخ کلامی بھی ہو جاتی ہے مگر یہ کیا درندگی‘ سفاکی اور بے رحمی ہے کہ آپ اس کے سینے میں درجنوں گولیاں اتار دیں۔ پھر آپ جھوٹ بولتے ہیں کہ اس معصوم بچے کو دہشت گرد ثابت کرکے اس کے پیچھے گولیاں چلاتے ہیں مگر گولیاں اس کے سینے سے برآمد ہوتی ہیں۔ آپ کتنے بے رحم ہیں۔ ہائے ہائے اس والدہ کا جگر تو کٹ ہی گیا ہوگا۔ اسامہ کی کی بہن کی باتیں سنی نہیں جا رہی تھیں کہ وہ اپنی والدہ کی حالت بتا رہی تھی کہ کیسے وہ اپنے بیٹے کے لیے تڑپتی رہی۔ عوام بھی مجرم ہیں کہ جو ہر ظلم پر خاموش ہو جاتے ہیں اور حکمران بھی کان لپیٹ لیتے ہیں۔ پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکومت کسی بھی کام میں سنجیدہ نہیں ہے اور یہ سب سے زیادہ خلاف تعلیم کے ہے۔ تو ایسے میں جہالت‘ بے راہ روی اور قتل و غارت کون روک سکتا ہے منیر نیازی نے کہا تھا: اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے ساہیوال کا خوں چکاں واقعہ ہوا تھا۔ لکھنے والے لکھتے رہے کہ یہ حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے مگر بے حسی او ربے رحمی سے معاملے کو حسب دستور دبا دیا گیا۔ اب یہ اسامہ والا واقعہ ہوگیا۔ کوئی حیرت نہیں ایک کرپٹ ہٹتا ہے توکوئی اور اس کی جگہ آ جاتا ہے۔ کہیں بھی حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آ رہی۔ انسان کدھر دیکھے۔ بس اللہ ہی ہے دل کٹ چکا ہے۔ میں نے کہا ناں کہ دل بہت افسردہ ہے۔ غم کے اس موسم میں ہمارے پیارے دوست دانشور کالم نگار اور صحافی رئوف طاہر ہمیں چھوڑ گئے۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ وہ واقعتاً اہل دل تھے۔ دوستوں سے محبت کرنے والے۔ رہ رہ کر ان کا خیال آتا رہا۔ وہ ہر دلعزیز تھے۔ پہلی ملاقات ان کے ساتھ ارشاد احمد عارف کے ہاں ہوئی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ ہر اچھی محفل میں ان کے ساتھ ملاقات رہی۔ مسکراتا ہوا مانوس چہرہ کتنا جاذب نظر تھا۔ میں عمرہ کرنے گیا تو وہاں آصف شفیع کے ساتھ مکہ میں رئوف طاہر سے ملاقات ہو گئی تو اتنے پیار سے ملے کہ فوراً نوائے وقت کے لیے میرا انٹرویو ریکارڈ کروایا اور چھاپا۔ وہاں ان کے ساتھ نوازشریف کے حوالے سے باتیں ہوئیں جو سرور محل میں ٹھہرے ہوئے تھے اور رئوف طاہر ان کے کافی قریب تھے۔ یہی تو رئوف طاہر کی خوبصورتی تھی کہ وہ وفادار اور دھڑکے کے آدمی تھے۔ وہ سعد رفیق کے ساتھ بھی ریلوے میں ڈائریکٹر انفارمیشن رہے۔ تب ہماری کالم نگاروں کی ایک ملاقات سعد رفیق کے ساتھ انہوں نے ارینج کی تھی اور واقعتاً اس وقت ریلوے ترقی کررہا تھا میں نے تب بھی لکھا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنا کالم جوکہ دنیا میں چھپتا تھا بھیج دیتے۔ کبھی کبھی کوئی شعر انہیں چاہیے ہوتا تو فون کرتے۔ آپ یقین مانیے کہ وہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے۔ سوشل میڈیا پر لگیں پوسٹیں بتاتی ہیں کہ وہ کس کس دل میں بسے ہوئے تھے۔ ہزاروں لوگوں کی شہادت ان کے نیک دل ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ وہ بے شمار لوگوں کی دعائوں میں رہیں گے۔ ہائے ہائے وہ کتنے پیارے تھے آنکھیں بھی ان کی ہنستی تھیں اور وہ نرم و گداز لہجے کے ساتھ دل میں اتر جاتے ہے۔ اللہ پاک ان کے ساتھ اپنی رحمت کا معاملہ کرے اور رسول کریمؐ کے صدقے ان کی بخشش فرمائے۔ آمین۔ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے نسیم وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے