زندگی کو بہتر گزارنے کا فلسفہ بہت سادہ ہے مگر ہم نے اسے اتنا الجھا دیا گویا ریشمی دھاگوں کا ایک گولا الجھا پڑا ہے اور دل اس الجھن میں پڑا ہے کہ اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کروں۔ طرح طرح کے نظریات، فلسفوں اور نت نئی سیاسی سماجی تحریکوں کے تصورات نے سماج میں پیچیدگی پیدا کر دی ہے ہم دنیا کو بدلنے اور دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ہماری دنیا سب سے پہلے ہمارا گھر ہے۔ ہمارے گھروں میں ہمارے رشتے ناطے آپس میں الجھے ہوئے ہیں ہمارے نوکیلے رویے ایک دوسرے کو چھبتے رہتے ہیں۔ توجہ کے طالب رشتے ہماری حقیقی اور خالص توجہ سے محروم ہیں اور ہم دنیا کو بدلنے کے لیے باہر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر کو جہنم بنا کے دنیا کو خوبصورت بنانے کا نعرہ لگا نا سراسر خود فریبی ہے۔ این جی او زدہ عورتیں، جن کے اپنے گھروں میں معاملات اوندھے پڑے ہیں معاشرے کو انقلاب پڑھانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔سوشل میڈیا نے ہمارے معاشرے کی اجتماعی نفسیات کو اندر باہر سے سکین کر کے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہم انہیں بھی جاننے لگے ہیں جنہیں نہیں جانتے تھے اور جنہیں جانتے تھے ان کے کئی کئی روپ ہمارے سامنے پڑے ہمیں حیران کرتے ہیں۔وہ جن کی بیویاں گھروں میں تعریف کے دو بول کو ترسی ہوئی ہیں وہ فیس بک پر دوسری عورتوں کے کھانوں کی تعریفوں پر دل کھول کر داد دیتے نظر آتے ہیں ۔گھر کو اپنے مزاج سے جہنم بنا دینے والے سوشل میڈیا پر اخلاقیات، تحمل و برداشت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔سارا معاشرہ ایک دوسرے کو سکھا رہا ہے مگر خود سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ آج کے جدید دور کی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کے ہمہ جہت حساس زاویوں کی اہمیت کو نظر انداز کرکے معاشرے کو سدھارنے پر کمر بستہ ہیں۔ کوئی کیسے بتائے اور کیسے سمجھائے کہ ہمارے وقت کا سب سے اہم استعمال یہ ہے کہ ہم نوکیلی اور تاریک عادتوں کو بدل کر روشن اور خوشبودار عادتوں کو اپنانے کی سعی کریں۔ معاشرے کو بدلنے کا آغاز ہماری اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوگا۔معاشرے کو بدلنے کا خام مال انسان کی سوچ ہے ۔ہمیں مائنڈ سیٹ بدلنے پر کام کرنا ہوگا۔ ٹی وی چینلوں میں 24گھنٹے سیاست پر تجزیے اور ٹاک شوز نشر ہوتے رہتے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں سے کوئی ایک پروگرام بھی ایسا ہے جو لوگوں کو یہ سکھائے کہ آپ نے اپنی زندگیوں کے قبلہ کو کیسے درست کرنا ہے؟ زندگی کو ضائع کرنے والی عادتوں سے کیسے بچنا ہے۔ اچھی عادتیں کیسے اپنانی ہیں۔ میں کہتی ہوں پاکستانیوں کو صرف ان کے وقت کی اہمیت کا احساس دلا دیں تو ان کے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ہم پاکستانی وقت برباد کرنے والے تماشبین ہیں۔سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے ، مدد کرنے والا تو کوئی ایک آدھ اللہ کا بندہ ہوتا ہے مگر تماشائی اپنے کام چھوڑ کر جائے حادثہ پر ہجوم لگا دیتے ہیں۔تماش بینی کی یہی عادت پاکستانیوں کو سیاسی جلسہ گاہوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کرنے لے جاتی ہیں۔سیاسی جلسوں کو اپنے بھنگڑوں ، نعروں اور اپنی موجودگی سے سجانے والے نچلی سطح کے ورکر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے اپنے گھروں میں معاشی تنگی کے ڈیرے لگے رہتے ہیں۔ غربت ، بھوک اور مسائل کے عفریت ان کی زندگی کو اجیرن کئے رکھتے ہیں مگر یہ اپنے کام کاج چھوڑ کر سیاسی جلسوں میں انقلاب اور نظام بدلنے کے نعرے لگا کر اپنی زندگیاں برباد کرتے ہیں۔ان کی زندگیوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے والے سیاسی لیڈر انہیں وقت کی اہمیت کا احساس کبھی نہیں دلا ئیں گے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہاں انقلاب، بغاوت اور نظام بدلنے کے نعرے خوب لگائے جاتے ہیں مگر انسان کی سوچ بدلنے پر کبھی کام نہیں ہوا ۔ یقین جانیں کہ اگر ہر انسان اپنی سوچ کو بدلے، اپنے قول و فعل میں بہتر سے بہترین ہونے کی تگ دو میں لگ جائے تو معاشرہ اور نظام خود بخود بدل جائے گا۔ ہم جس جگہ پر ہیں جس حیثیت میں کام کر رہے ہیں وہاں اپنا بہترین انسان دوست ورژن اس معاشرے کو دیں۔ معاشرہ انسانوں سے مل کر بنتا ہے لیکن انسان کو بدلنے کی راہ میں "سٹیٹس کو "کی قوتیں ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتی رہیں گی کیونکہ اسی میں ان کا سر وائیول ہے۔ مجھے حیرت ہے۔ لوگ کس طرح کام کاج چھوڑ کر اپنا وقت ضائع کرنے سیاسی جلسوں میں چلے جاتے ہیں۔اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے والی اس سرگرمی کو وہ ملک میں انقلاب لانے سے تصور کرتے ہیں الامان!بار بار کی سنی ہوئی سیاسی تقریروں کو بار بار سنتے ہیں جس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔سیاسی جلسوں میں کرسیاں بھرنے والے 90 فیصد لوگ عام طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، اقتدار کے اس کھیل سے جنہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔کاش! سیاسی جلسوں میں ناچتے ہوئے وقت ضائع کرتے ہوئے، کرسیاں بھرتے ان لوگوں کو میں سمجھا سکوں کہ لوگو تمہارے پاس تمہارا قیمتی اثاثہ صرف اور صرف تمہارا وقت ہے اسے یوں سیاسی جلسوں کی جھوٹی تقریروں اور کھوکھلے نعروں میں برباد مت کرو۔ جاؤ اپنے کام کرو۔ ہنر سیکھو اور اپنی زندگی کو بدلو۔ اپنے گھروں اور گھر کے مکینوں پر توجہ دو ۔اپنی ذات میں انقلاب لانے کی کوشش کرو۔ اپنے وقت کو برباد کرکے اپنی زندگیوں سے صرف نظر کرکے جھوٹے خواب بیچتے سیاسی لیڈروں کو دیوتا سمجھ کر انقلاب لانے کے خواب دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے ایک درخت کی جڑیں گلی سڑی ہوں اور آپ اس پر پھل پھول آنے کا انتظار کریں ۔ یہ لاحاصل انتظار خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟ دنیا بدلنے کا نسخہ ایک ہی ہے، اپنے وقت کی قدر پہچانو۔ خود کو بدلو۔ جدید دور کا ہنر سیکھو ۔ آگے بڑھو اپنے سے جڑے رشتوں کو اپنی دیانت بھری توجہ دو ، تمہاری دنیا میں انقلاب برپا ہوجائے گا !!