اسکے تین سال بعد 2018میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز کے ایک پروگرام میں مئی 1998کو جوہری دھماکے کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ کے سنتھانم نے اسکی تصدیق کی کہ عبدالکلام کا جوہری تجربوں سے ،نہ بم بنانے کے پراجیکٹ کے ساتھ کوئی لینا دینا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس تقریب میں بھارت کے چنیدہ ہ اسٹریجک دماغ موجود تھے۔ سنتھانم نے اس دن اپنے دل کے سبھی پھپھولے کھول دئے۔ ان کا کہنا تھا کئی افراد اور اداروں کو کریڈیٹ لینے کا خبط سوار ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کلام کا اور ممبئی کے بابا اٹامک ریسرچ سینٹر یعنی بارک کا نام لیکر بھارت کی تکنیکی حصولیابی کو ا نہوں نے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا اور اس میں عبدالکلام نے مہارت حاصل کی۔ انہوں نے صحافیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیکر کہا کہ کس طرح وہ عبدالکلام کو بھارت کے جوہری پروگرام کا خالق قرار دیتے ہیں؟’’تاسف ہے کہ چند افراد نے تکنیکی کامیابی کو اپنی تشہیر کیلئے استعمال کیا اور اسی میں عبدالکلام نے مہارت حاصل کی۔ اس نے زندگی میں کبھی بھی ایک بھی تحقیقی پیپر شائع نہیں کیا۔ وہ دھماکہ خیز گریڈ مواد کے بارے میں کیا جانتے تھے؟ یہ ان کا فیلڈ ہی نہیں تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بارک نے بھی بم کو اپنے کھاتے میں ڈال دیا، جبکہ چندی گڈھ کی ٹیکنیکل بیلسٹک ریسرچ لیب نے ٹریگر فراہم کیا تھا اور پونا کی دفاعی تحقیقی لیب نے انرجی کے اخراج کو ماپنے کے آلات فراہم کئے تھے۔ سنتھانم نے مزید کہا کہ مئی 1998کے تجربوں کے خاطر خواہ اور توقع کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوئے اور بھارت ابھی بھی معتبر ڈیٹرنس سے دور ہے۔ ان کی کہنا تھا کہ ایک معتبر ڈیٹرنس کیلئے مزید تجربات درکار ہیں۔ مزید بھارت کا ہائیڈروجن بم ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔ چین نے 50اور امریکہ نے 2,000تجربات کرکے ڈیٹرنس مکمل کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ڈیٹرنس بھارت کے مقابلے معتبر ہے، کیونکہ چین نے اسکو ٹیسٹنگ فیلڈ تک رسائی دی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مئی 1998میں تجربات سے قبل انہوں نے پوکھران رینج کی ایک طرح سے ناکہ بندی کی تھی، تاکہ تجربہ کی خبر لیک نہ ہونے پائے۔ امریکی سیٹلائٹوں کو دھوکہ دینے کیلئے سبھی سائنسدانوں کو آرمی کی وردی پہنائی گئی تھی۔ فوج کی 58ویں انجنئیرنگ ر جمنٹ نے 1995سے کئی بار سیٹلائیٹوں کو دھوکہ دینے کی مشقیں کی تھیں۔ مگر سنتھانم کا کہنا تھا کہ صرف پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو بھنک مل گئی تھی۔ ان کی کہنا تھا کہ آس پاس کے گاوٗں والوں کو کچھ شک ہو گیا تھا۔ تجربے سے ایک روز قبل صبح سویرے ایک گھڑ سوار نے سکیورٹی کے دوسری لائن کو عبور کیا تھا، مگر تیسری لائن پر اسکا سراغ لگایا گیا۔ ’’وہ شاید پاکستانی ایجنسی کا ہرکارہ تھا ، جو سن گن لینے آیا تھا۔‘‘ گو کہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی جوہری پروگرام کی داغ بیل 1974میں ڈالی گئی تھی، مگر اس کی شروعات 1961میں ہوئی تھی، جب مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے مقام روپ پور میں نیوکلیر ری ایکٹر لگانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ 1963میں اس مقام پر 254ایکڑ زمین بھی ایکوائر کی گئی تھی۔ کنیڈا، ناروے اور پھر سویڈن کے ساتھ ری ایکٹر خریدنے کی بات چیت ہوئی، مگر پھر 1970میں اس پر کام بند ہوگیا۔ 2016میں بنگلہ دیش نے روس کی مد د سے اس پروجیکٹ کا احیاکیا اور اب یہ 2023تک تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے کئی بار اشتراک کرکے پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کیلئے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اسکو اسلامی بم سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں پلوٹونیم ری پرسیسنگ کی جانکاری تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیںکہ پاکستانی سائنسدان یورینیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ مگر کہاں او ر اسکا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔منصوبہ تھاکہ پلانٹ کا پتہ چلتے ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد بھارتی سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اسکو تباہ کردیگا۔ جیسا کہ بعد میں 1981 میں اسنے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی نیوکلیر ریکٹر کو تباہ کردیا گیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ذمہ اس پلانٹ کا پتہ لگانا تھا۔ جب کئی آپریشنز ناکام ہوئے، تو بتایا جاتا ہے، کہ بھارتی خفیہ اہلکاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکھٹے کرنے شروع کر دیئے۔ ان کو ٹسٹ ٹیوبوں میں محفوظ کرکے لیبل لگا کر بھارت بھیجا جاتا تھا، جہاںانتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سال ہا سال چلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یرینیم ۔235 کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ اور یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان 90فیصد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کیلئے 4یا5فیصد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے۔اور یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔مگر تب تک بھارت میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔1978میں نئے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب راء کے افسران یہ منصوبہ لیکر پہنچے، تو انہوں نے نہ صرف اسکی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ صدر ضیاء الحق کو فون کرکے بتایا، کہ بھارت کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے۔را نے ڈیسائی کو اسکے لئے کبھی معاف نہیں کیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نے پاکستانی صدر کو یہ بتا کر را کے ایجنٹوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا۔ اور اس کے بعد کئی برسوں تک را اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ڈیسائی واحد شخص ہیں ، جنہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ’’نشان پاکستان‘ اور بھارت کے اعلیٰ ترین ایواڑ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ ڈیسائی کے اس قدم سے پاکستان نے نہ صرف کہوٹہ کو فضائی حملوں سے محفوظ کیا، بلکہ پس پردہ سفارتی کوششوں سے اسرائیل کو باور کرایاکہ پاکستانی نیوکلر بم اسکے لئے خطرہ نہیں ہے۔(ختم شد)