یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ برطانوی شہر لیسٹر میں جب ستمبر میں اس ملک کی تاریخ کا پہلا ہندو۔مسلم فساد برپا ہوا، اس سے قبل ہندوانتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کئی لیڈران اس ملک کے دورے پر تھے۔ اس فساد کا طریق واردات اسی طرح کا تھا، جس طرح عام طور پر بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کروانے کیلئے کیا جاتا ہے ۔ یعنی کہ مسلم علاقوں سے زبردستی جلوس نکلوا کر جان بوجھ کر اشتعال انگیز نعرے لگوا کر مسلمانوں کو رد عمل کرنے کیلئے مجبور کروانا۔ صحافت میں اپنے تیس سالہ کیرئیر میں ، میں نے کئی فسادات کور کئے ہیں۔ کم و بیش سب کی کہانیاں ایک جیسی ہی ہوتی تھیں۔ کبھی رام نومی، تو کبھی گنیش تو بھی کسی اور جلوس کو زبردستی مسلم علاقوں سے گزارنا ، یا کسی مسجد کے پاس عین نماز کے وقت اس جلوس کو روک کر بلند آواز میں ڈی جے بجانا وغیرہ۔ ایک اور اتفاق یہ ہوتا تھا، کہ اس جلوس یا فساد سے قبل اسی شہر یا علاقے میں آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی تنظیم کا اجتماع ہوتا تھا اور واردات کے وقت پولیس غائب ہوجاتی تھی، تاکہ فسادیوں کو کھل کا کھیلنے کا موقع دیا جائے ۔ پولیس کی آمد کا وقت بھی اس بات پر منحصر ہوتا ہے، کہ فساد میں کس کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے ، اور پھر موقع پر پہنچ کرمسلمانوں کو ہی غضب کا نشانہ بناتی ہے۔ایک سینئر پولیس آفیسروبھوتی نارائین رائے نے جو ایک مصنف بھی ہیں، فسادات میں بھارتی پولیس کے رویہ پر ڈاکٹریٹ کیلئے تھیسیس لکھی ہے۔ بھارت میںجیتند نارائین کمیشن سے لیکر سری کرشنا کمیشن تک یعنی فسادات کی تحقیق کیلئے جتنے بھی کمیشن یا کمیٹیاں آج تک بنی ہیں،ان سب نے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی نہ کسی تنظیم کو قتل و غارت یا لوٹ مار کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ مگر کیا کریں یورپی ممالک کا، جو آج کل ویزا حاصل کرنے والوں سے لمبی چوڑی ضمانتیں اور بیان حلفی لیتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی انتہا پسند تنظیم کے ساتھ ہے، نہ وہ کسی بنیاد پرست سوچ یا کسی ایسی تنظیم کی حمایت کرتے ہیں، مگر نہ جانے کیوں انہوں نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کو اس زمرے سے خارج کیا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ متعدد تجزیہ کار کئی بار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی دائیں بازو کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں یعنی جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبہہ دیتے ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کی کمان اسکے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اسکی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربیً تنظیم آر ایس ایس کے پاس ہے، جو بلاشبہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات منظر عام پر ہیں۔ چند برس قبل تو برطانیہ کی ہندو ممبر پارلیمنٹ پریتی پٹیل کا ایک خط منظر عام پر آیا تھا، جس میں اس نے آرایس ایس کے جائنٹ سیکریٹری دتا رے ہوشبولے کی برطانیہ آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ، برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی، کہ ان کا استقبال کیا جائے۔ آر ایس ایس کی بیرو ن ملک شاخ ہندو سیوا سنگھ یعنی ایچ ایس ایس نے ہوشبولے کو لندن میں ایک پروگرام RSS: A VISION IN ACTION-A NEW DAWN کی صدارت کرنے کیلئے مدعو کیا تھا۔ یہ ممالک 2014سے قبل تک تو وزیر اعظم نریندر مودی، جو تب تک گجرات صوبہ کے وزیر اعلیٰ تھے، کو ویز ا نہیں دیتے تھے، آجکل آرایس ایس اور اسکی ضمنی تنظیموں کے لیڈران کی پذیرائی کرتے نظر آتے ہیں۔حیرت کا مقام ہے کہ مغرب نے جس فاشسٹ نظریہ کو 1945میں شکست دیکر ایک جمہوری، لبرل اور تکثیری معاشرہ کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی ،حتیٰ کہ کئی ملکوں میں اس معاشرہ کوقابل قبول بنوانے کیلئے فنڈنگ سے لیکر فوجی چڑھائی بھی کی، آخر کس طرح بھارت میں پنپتے فاشز م سے اس نے نہ صرف آنکھیں موند لی ہیں، بلکہ ا پنے ملکوں میں بھی اس نظریہ کی تبلیغ کی اجاز ت دے کر اس سے وابستہ لیڈروں کو گلے بھی لگا رہے ہیں۔ خیربرطانیہ میں رونما ہونے والے ان فسادات سے عندیہ ملتا ہے کہ ہندو تو نظریہ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوں میں جگہ بنا کر بھارت کی سرحدیں عبور کر لی ہیں۔ برطانیہ میں بھارتی نژاد آبادی کل آبادی کا 2.5فیصد اور پاکستانی نژاد1.5فیصد ہے۔ امریکہ میں 2.7ملین بھارتی نژاد آبادی ہے۔ میکسیکن کے بعد یہ شاید تارکین وطن کی یہ سب سے بڑی آبادی ہے اور یہ خاصے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر براجماں ہیں۔ آر ایس ایس کی دیگر شاخیں یعنی ویشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) بھی ان ملکوں میں خاصی سرگرم ہے، اور یاد رہے کہ یہ تنظیم 1992میں بابری مسجد کی مسماری میں شامل تھی۔جس کی وجہ سے اس پر بھارت میںکچھ سال تک پابندی بھی لگی تھی۔ اس دوران جب پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے اس کے دفاتر کی دہلی اور دیگر شہروں میں تلاشی لی، تو معلوم ہوا کہ بابری مسجد کی مسماری کیلئے فنڈنگ ہی یورپ اور خلیجی ممالک سے آئی تھی۔ دراصل وی ڈی ساوارکر، جس نے اصل میں دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی تھی اور جو ہندو توا نظریہ کے خالق ہیں، نے ہندوں پر زور دیا تھا کہ وہ نئی زمینیں تلاش کرکے ان کو نو آبادیوں میںتبدیل کریں۔ ان کو رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ مسلمان او ر عیسائی دنیا کے ایک وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہندو صرف جنوبی ایشیامیں بھارت اور نیپال تک ہی محدود ہیں۔ اپنی کتاب Essentials of Hindutva میں وہ آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ سے ایک قدم آگے جاکر عالمی ہندو نظام یا سلطنت کی وکالت کرتے ہیں۔ ایک صدی بعد اسوقت آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیمیں اس نظریہ کو عملاً نافذ کروانے کا کام کررہی ہیں۔ گو کہ یہ تنظیمیں یورپ میں 1960سے ہی کام کرتی ہیں، مگر ان کا دائرہ 2014میں مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد وسیع اور فعال ہو گیا ۔ آر ایس ایس، ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب 48ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکہ میں ایچ ایس ایس نے 32ریاستوں میں 222شاخیں قائم کی ہیں اور اپنے آپ کو ہندو فرقہ کے نمائندہ کے بطور پیش کیا ہوا ہے۔ متحدہ امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی وہ سرگرم ہیں۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کی تھینک ٹینک انڈیا فاونڈیشن کے ذمہ داروں نے ترکیہ کا دورہ کرکے وہاں حکومتی شخصیات اور تھینک ٹینک کے ذمہ داروں سے بات چیت کی، جو کہ نہایت ہی چونکا کردینے ولا واقعہ ہے اور اس کا نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے۔ آر ایس ایس افریقی ملک کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاوٗں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگنڈا‘ موریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندووٗں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔(جاری ہے)