یہ امر قرین قیاس ہے کہ علامہ اقبال اور رائے بہادر دیوی چند کی ملاقات کسی مشترکہ دوست کے ہاں ہوئی ہو۔دیوی چند اس زمانے کے اکثر نوجوانوں کی طرح اقبال سے عقیدت رکھتے ہوں۔اگرچہ اقبال کے ہندو دوستوں اور غیر مسلم شخصیات سے متاثر ہونے کے موضوع پر کام ہوا ہے لیکن یہ ایسے دوست ہیں جو شاعر تھے‘ ادیب تھے یا پھر نمایاں سیاسی حیثیت کے مالک۔ ڈاکٹر دانش حسین دہلی یونیورسٹی میں اردو کے استاد ہیں ۔بھارتی مسلمانوں کو اپنے اسلاف کی رواداری کی مثالیں پیش کر کے سماج میں اپنے لئے گنجائش کا چیلنج ہوتا ہے اس لئے وہ ان موضوعات پر کام کر لیتے ہیں جنہیں کسی وجہ سے پاکستان میں اہم نہیں سمجھا جاتا ۔اردو ریسرچ جرنل کے شمارہ چھ میں ان کا ایک مضمون ’’اقبال کی شاعری میں ہندوستان کی عظیم غیر مسلم شخصیات ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں : ہندوستان کی کچھ عظیم غیر مسلم شخصیات سے اقبال کسی نہ کسی حدتک متاثر تھے اور جن پر اقبال نے نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ان میں رام چندر ، شری کرشن ، گوتم بدھ ، گرونانک ، بھرتری ہری ، وشو امتر ، سوامی رام تیرتھ وغیرہ اہم نام ہیں۔‘‘ ڈاکٹر دانش کے بقول: ’’بھرتری ہری سنسکرت کا ایک عظیم الشان شاعر ہے ۔بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی عیسوی قبل مسیح کا ہے۔بھرتری ہری کا تعلق شاہی خاندان سے تھا جس کا دارالحکومت اجین تھا۔ بھرتری ہری نے سنسکرت زبان میں اشلوک لکھے جو حسب ِ ذیل ہیں۔ (۱) شرنگار شتک : اس شتک میں سو شلوک ہیں اس میں بھرتری ہری نے عشق و محبت کی باتیں کی ہیں۔ (۲)نیتی شتک: کہا جاتا ہے کہ جب بھرتری ہری اجین کا راج کمار تھا تب اس نے نیتی شتک لکھا تھا جس کا مطلب سیاست ہے ، اس شتک میں اس دور کی سیاست کی عکاسی ہے۔ (۳)ویراگیہ شتک : جب بھرتری ہری نے سنیاس لے لیا اور اپنا راج پاٹ چھوڑ کر فقیری اختیار کی تو اس نے ویراگیہ شتک لکھا۔ اس کا مطلب ہے معرفتِ الہٰی اور فقیری۔ اقبال بھرتری ہری کے قول وعمل سے بہت متاثر ہیں اور تمام انسانوں کی فلاح کا راستہ بتاتے ہیں۔ اس فکر کا اثر اقبال کے کلام میں ہمیں جابجا نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال نے بال ِ جبریل کا آغاز اس شعر سے کیا ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثر اقبال رام چندر کی بہادری ، عدل و انصاف ، والدین کے ساتھ اطاعت ، بھائیوں سے محبت ، سیرت وکردار کی پاکیزگی ، ایثار و قربانی ، قول کی پاسداری ، ظلم کے خلاف برسر پیکارہونے کی وجہ سے پسند کر تے ہیں۔ ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ِ ہند تلو ار کا دھنی تھا شجاعت میں مر د تھا پاکیزگی میں جو ش محبت میں فرد تھا گوتم بدھ نے آپس میں مساوات ، ہمدردی اور محبت کا درس دیا تھا ۔ شاید اسی لئے اقبال نے بھی کہا ہے کہ :۔ قوم نے پیغام ِ گوتم کی ذرا پرواہ نہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی علامہ اقبال گرونانک کے متعلق کہتے ہیں: چشتی نے جس زمیں پہ پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے علامہ اقبال اور سوامی رام تیرتھ ایک ہی کالج میں پڑھاتے تھے کہاجاتا ہے کہ جب سوامی رام تیرتھ امریکہ سے واپس آئے تو بہت دنوں تک زندہ نہیں رہے اور وفات پا گئے۔ جب ان کے انتقال کی خبر علامہ اقبال کو ملتی ہے تو وہ بے چین اور مضطرب ہوجاتے ہیں اور سوامی رام تیرتھ کی یاد میں ایک نظم لکھتے ہیں :۔ ہم بغل دریا سے اے قطرہ بے آب تو پہلے گوہر تھا اب بنا گوہر ِ نایاب تو آ ہ کھولا کس ادا سے تونے راز ِ رنگ و بو میں ابھی تک ہوں اس پر امتیاز رنگ و بو‘‘ اقبال کے موضوعات اور تصورات بعد میں چونکہ مسلم قوم سے متعلق ہو گئے اس لئے محققین از خود یہ سمجھ بیٹھے کہ اقبال نے 1930ء کے خطبہ الہ آباد کے بعد کسی ہندو یا سکھ سے ہاتھ بھی نہ ملایا ہو گا۔ ایسا سمجھا گیا ہے تو یہ غلط فہمی ہے جس کو دور کر لینا چاہیے۔ رائے بہادر دیوی چند اسی باہمی رواداری کی فضا میں اقبال سے متاثر ہوئے ہوں گے۔دیوی چند جدید فیشن کا لباس پہننے والے مستعد شخصیت تھے۔ان کے فرزند میجر جنرل نرمل چند بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ اپنے والد کے ساتھ شملہ میں سیر کر رہے تھے۔والد کو سگریٹ سلگانا تھی لیکن ماچس ختم ہو گئی۔میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیا کرتا تھا۔انہوں نے اچانک مجھے کہا کہ ماچس دو۔ میں نے جیب سے ماچس نکال کر دے دی۔والد نے سگریٹ سلگایا اور ماچس واپس کر دی۔کچھ دن بعد ہم دونوں اسی طرح سیر کر رہے تھے کہ انہوں نے جیب سے اپنی ماچس نکالی۔ایک دیا سلائی الگ کی اور مجھے دیتے ہوئے کہا کہ یہ لو۔یہ اس تیلی کا ادھار ہے جو میں نے لی تھی۔ رائے بہادر دیوی چند کے متعلق ایک اور واقعہ ان کے خاندانی ذرائع بیان کرتے ہیں۔تقسیم کے بعد جب ان کا خاندان بھارت چلا گیا اور کچھ عرصے بعد بیٹا فوج میں لیفٹیننٹ بھرتی ہوا تو آباد کاری سکیم کے تحت بیٹے کو مہاجر کے طور پر ایک پلاٹ وزارت دفاع کی طرف سے ملا۔ رائے بہادر دیوی چند کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئے۔بیٹے سے کہا کہ تقسیم کے وقت تم طالب علم تھے مہاجر اور گھر کے سربراہ نہیں تھے‘ تم یہ استحقاق نہیں رکھتے۔ اقبال نے میو روڈ والا پلاٹ لے کر اپنے بھائی عطا محمد کو ذمہ داری دی کہ وہ تعمیراتی کام کی نگرانی کریں۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال پہلی بیگم سے بیٹے کو اس جائیداد میں سے حصہ نہیں دینا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے یہ جائیداد جاوید اقبال کے نام کی۔1970ء کے عشرے میں جاوید اقبال نے یہ جائیداد اقبال میوزیم کے لئے دیدی۔ اقبال کے آخری تین برس جاوید منزل میں گزرے۔ ان کے لئے کمرہ مخصوص تھا۔اقبال بطور سیاستدان‘ مفکر اور شاعر کے اپنی حیثیت منوا چکے تھے۔پورے ہندوستان سے لوگ انہیں ملنے آتے۔ جاوید منزل ان دنوں ڈاک خانے والوں کے لئے مشہور پتہ بن چکی تھی۔اقبال اور دیوی چند انشا اللہ مزید تحقیق کا موضوع رہیں گے۔