علامہ اقبال انارکلی کے ایک مکان میں رہا کرتے تھے۔ناموری ‘ احترام اور پذیرائی تھی لیکن بطور وکیل پریکٹس ایسی تھی کہ جب دل کیا چلے گئے جب کوئی ہم مذاق مل گیا بالاخانے پر بیٹھے شعر و سخن یا فلسفہ کی مجلس آباد کر لیتے۔مولانا گرامی سے ایک بار تین دن تک ایک ہی جگہ بیٹھے گفتگو کا سلسلہ رہا۔اس سب کے باوجود علامہ سے عقیدت رکھنے والے کئی دیسی حکمرانوں نے انہیں اپنا قانونی مشیر مقرر کر رکھا تھا۔نواب آف بہاولپور کی جانب سے اسی مد میں باقاعدہ فیس آتی تھی۔اقبال جرمنی سے پی ایچ ڈی اور یورپ کے مطالعاتی دورے کے بعد وطن واپس آئے تو دل میں ایک خواہش اٹھی کہ انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ لاہور میں گزارا ہے‘ لاہور میں ایک گھر ہونا چاہیے۔ 1923ء میں علامہ اقبال انارکلی والا مکان چھوڑ کر میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں آ گئے۔ 1933ء میں کسی دوست نے بتایا کہ میو روڈ پر ایک کشادہ قطعہ خالی پڑا ہے۔یہ محکمہ نزول کی ملکیت تھا۔ پچھلے چند ہفتوں کی کھوج میں معلوم نہیں ہو سکا کہ محکمہ نزول کے کنٹرول میں آنے سے پہلے اس زمین پر کون سی عمارت تھی۔بہرحال کسی مغل امیر یا سکھ سردار کی حویلی کے امکانات ہو سکتے ہیں کہ اس علاقے میں سکھ دور کی کئی عمارات تھیں۔اقبالؔ کو یہ زمین پسند آئی اور اس کو خریدنے کا ارادہ کیا۔ چونکہ شہر کے اہم گوشے میں تھی اس لئے اس زمین کو خریدنے کے خواہش مند اور لوگ بھی تھے۔ محکمہ نزول نے جب نیلام کرنے کا نوٹس جاری کیا تو کچھ مسلمان خریداروں کے ساتھ بعض ہندو ساہوکار بھی بولی کے وقت موقع پر پہنچ گئے۔نقوش کے لاہور نمبر میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے رئیس افراد میں سے ایک رائے بہادر دیوی چند کھنہ تھے۔وہ لکڑی کے تاجر تھے اور ریلوے روڈ پر امرت دھارا بلڈنگ کے نزدیک ان کا لکڑی کا کارخانہ تھا۔ رائے بہادر دیوی چند کے متعلق لاہور کا تاریخی مواد خاموش ہے۔ رائے بہادر کا خطاب رکھنے والے ایک دیوی چند انجینئر تھے۔یہ اسی زمانے کے ہیں۔ پنجاب انجینئرنگ کانگرس کے نام سے ایک انگریزی تحقیقی جریدہ تھا جس میں انجینئرنگ کانگرس کے عہدیداروں ،کونسل ممبران کے نام اندرونی سرورق پر شائع ہوتے۔اس جریدے میں آبپاشی‘ سڑکوں اور عمارات کی تعمیر اور تکنیکی امور پر منتخب تحریریں شائع کی جاتیں۔پنجاب انجینئرنگ کانگریس کے 1940میں شائع والیم نمبر 28میں کونسل کے عہدیداروں کی فہرست دیکھیں تو اس میں رائے بہادر دیوی چند کھنہ کا نام نظر آتا ہے۔ انگریزی میں لکھے نام میں چند کی بجائے’’ چندرا‘‘ ہے۔اس کا مطلب بھی چند یا چاند ہی ہے۔رائے بہادر دیوی چند کھنہ پبلک ہیلتھ میں ملازم تھے۔معلوم نہیں نقوش کے مضمون نگار نے انہیں لکڑی کا تاجر کیوں لکھا لیکن جس تفصیل کے ساتھ ان کے کارخانے کا مقام لکھا گیا ہے اس سے یہ امکان ہے رائے بہادر انگریز کی ملازمت کے ساتھ اپنا ذاتی کاروبار بھی کرتے ہوں جسے ان کے گھر کا کوئی دوسرا فرد یا ملازم دیکھتے ہوں۔رائے بہادر دیوی چند کھنہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔اس حساب سے 1933ء میں جب نیلامی ہوئی تو رائے بہادر دیوی چند کھنہ کی عمر 29برس تھی۔ رائے بہادر دیوی چند کھنہ 9بہن بھائی تھے۔ 1927ء میں ان کی شادی شانتی دیوی سے ہوئی۔ان کے ایک بیٹے نرمل چند کھنہ بھارتی فوج میں میجر جنرل ہوئے۔رائے بہادر دیوی چند کھنہ نے نے 69سال کی عمر میں 1974ء میں انتقال کیا۔ میو روڈ والے پلاٹ کی بولی شروع ہوئی تو جلد ہی علامہ اقبال کی گنجائش والی رقم سے نیلامی اوپر چلی گئی۔ اقبال دل برداشتہ سے ہو گئے۔ اتنے میں ایک صاحب بڑھ چڑھ کر بولی لگانے لگے۔ جلد ہی خریداری کے باقی خواہش مند پیچھے ہٹنے لگے۔ایک نے ان صاحب سے کہا کہ بھائی پلاٹ کی قیمت اتنی نہیں‘ آپ کیوں بڑھا رہے ہیں۔وہ بولا یہ پلاٹ ڈاکٹر محمد اقبال کو پسند آ گیا ہے۔مجھے ہدایت ہے کہ ہر قیمت پر خرید کر اقبالؔ کی نذر کروں۔ اندازہ ہے کہ یہ رائے بہادر دیوی چند کا بھائی یا منیجر ہو سکتا ہے۔ آخر 25025روپے میں 7کنال کا یہ پلاٹ خریدا گیا اور اسکے کاغذات تیار کر کے اقبالؔ کی خدمت میں پیش کر دیے گئے۔ بزرگ محقق ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اقبالؔ کی بیگم نے اپنے گہنے فروخت کر کے کچھ رقم اقبالؔ کو اس مقصد کے لئے دی تھی۔انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ بولی بڑھنے سے اقبالؔ کی رقم تقریباً دس ہزار روپے کم پڑ گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ ممکن ہے دیوی چند نے پوری رقم یا پھر کم پڑ گئی رقم کا حصہ دیکر اقبالؔ کی مدد کی ہو۔ریکارڈ کے مطابق اقبالؔ نے یہ پلاٹ خرید کر اپنے فرزند جاوید کے نام کر دیا۔ اس کی تعمیر پر 1935ء میں 42025روپے خرچ ہوئے۔ اقبالؔ نے 21مئی 1935ء کو سامنے کے تین کمرے اپنے فرزند سے 50 روپے ماہوار کرایہ پر لے کر رہائش اختیار کی۔ امرتسر میں پیدا ہونیوالے رائے بہادر دیوی چند کھنہ شری بشن داس کھنہ کی چوتھی اولاد تھے‘ انہوں نے میکلیگن کالج آف انجینئرنگ رڑکی سے انجینئرنگ کی تعلیم پائی۔تعلیم سے فارغ ہو کر دیوی چند پنجاب پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے شعبہ پی ڈبلیو ڈی میں ملازم ہو گئے۔کالج کے ایام میں وہ کرکٹ اور ٹینس کے نمایاں کھلاڑی تھے۔کھیل کی بنیاد پر ہی انہیں 1926ء میں ملازمت ملی۔ اپنے 33برسوں پر محیط انجینئرنگ کیرئیر میں انہوں نے دیانتدار اور لائق افسر کی شہرت پائی۔ایگزیکٹو انجینئر کے طور پر انہوں نے لاہور میں سیوریج سسٹم کا ڈیزائن بنانے‘ بچھانے اور چلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں 1943ء میں انہیں رائے بہادر کا خطاب دیا گیا۔تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت شملہ منتقل ہو گئے اور پھر پٹیالہ چلے گئے جہاں انہوں نے لاہور ‘ ہریانہ اور ہما چل کی طرح بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کئے۔رائے بہادر دیوی چند اس عہد کے لاہور کی ایک نمایاں شخصیت تھے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ لاہور میں ہوں اور اقبالؔ سے ان کی ملاقات نہ ہو لیکن یہ ملاقات یا تعلق جاوید منزل والے پلاٹ کی خریداری کے علاوہ کیسا تھا اس کی کھوج کی ضرورت ہے۔