پرویز مشرف کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ وہ پہلا آرمی چیف ہے جسے غدّاری کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی اور جو جلاوطنی میں ہی اس دنیا سے چلا گیا۔ پاکستان میں چار فوجی ڈکٹیٹر آئے اور میری عمر کے لوگوں نے چاروں کی آمریت کا ’’لطف‘‘ اُٹھایا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے آخری پانچ سال میری ابتدائی یادداشتوں کا حصہ ہیں۔ اس کی اقتدار سے روانگی سے پہلے کے چند ماہ پاکستان کے درودیوار اس کے خلاف نعروں سے گونجتے تھے۔ ’’ایوب ۔۔۔۔ ہائے ہائے‘‘، کے یہی نعرے تھے کہ جب اس نے انہیں اپنے پوتوں کے منہ سے سنا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اقتدار کی راہ داریوں سے اسے اپنے ہی پروردہ اور لاڈلے جنرل محمد یحییٰ خان نے نکالا، وہ بھی ایسے کہ اسے ریڈیو پر اپنی مرضی کی تقریر بھی نہ کرنے دی گئی۔ لیکن موت اور تدفین کا عالم بھی انتہائی کسمپرسی کا تھا۔ 21 اپریل 1974ء کو جس ایمبولینس میں اس کی میّت ریس کورس گرائونڈ راولپنڈی لائی جا رہی تھی، تو وہ گہرے سبز رنگ کی فوجی ایمبولنس، اچانک چلتے چلتے چند جھٹکے کھا کر بالکل بند ہو گئی اور پھر دوبارہ سٹارٹ نہ ہو سکی اور جوانوں کو کچھ دُور گرائونڈ تک اس ایمبولینس کو دھکا لگانا پڑا۔ جنازہ پڑھا گیا اور اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ آبائی گائوں ریحانہ میں دفن کر دیا گیا۔ ایوب خان کی موت کے ٹھیک چھ سال بعد پاکستانی تاریخ کا سب سے متنازعہ جنرل یحییٰ خان بھی اپنے انجام کو جا پہنچا۔ کئی سال نظر بند رہنے اور عوامی غصے سے بچنے کی مسلسل تگ و دو میں بھائی کے گھر میں اس کی موت واقع ہوئی۔ اسے بھی گمنامی مگر فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ جس وقت 1980ء میں اسے دفن کیا جا رہا تھا تو کیبنٹ سیکرٹریٹ اور جی ایچ کیو کے دفاتر کی فائلوں میں حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی موجود تھی، جس میں یحییٰ خان کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی تھی۔ اس آرمی چیف کا کورٹ مارشل تو نہ ہو سکا لیکن فوجی اعزاز سے تدفین ضرور کر دی گئی۔ ضیاء الحق ان چار فوجی جرنیلوں میں سے واحد خوش قسمت شخص تھا، جسے نہ صرف ایک ایسا باوقار جنازہ ملا، جس میں صرف پاکستان کے طول و عرض سے ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دُور دراز علاقوں سے بھی لوگ جوق در جوق شرکت کے لئے آئے تھے۔ اس کے علاوہ فوجی اعزاز بھی ضیاء الحق کی تدفین پر اسے دیا گیا، مگر اس کا عوامی اعزاز اس کے فوجی اعزاز سے کہیں زیادہ تھا۔ پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کا وہ پہلا فوجی ڈکٹیٹر ہے جس نے پاکستان کی گزشتہ باون سالہ نظریاتی تاریخ کے بالکل اُلٹ اس ملک کی کشتی کا رُخ موڑنے کی کوشش کی۔ روشن خیال، سیکولر ،لبرل پاکستان اس کا خواب تھا اور وہ صرف ایسے ہی پاکستان سے محبت کرتا تھا۔ اس کا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نظریہ بھی ایک ایسے ہی پاکستان کے گرد گھومتا تھا جو اپنی اسلامی اساس سے دُور اور مغربی دنیا کی اخلاقیات کا ہم پلّہ نظر آئے۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے اور دونوں نے اس ملک میں اپنے بے شمار ہم خیال پیدا کئے۔ دونوں کی باقیات آج بھی موجود ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل برسرپیکار رہتی ہیں۔ ضیاء الحق کو مذہبی طبقہ پسند کرتا ہے۔ اس طبقے کا جمہوریت، عالمی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں نام کے مغربی تصورات سے کوئی زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔ لیکن مشرف کو پسند کرنے والے تو ’’جمہوریئے‘‘ ہیں جو ہر طرح کی آمریت سے نفرت کرتے ہیں لیکن پرویز مشرف کی آمریت انہیں پسند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویز مشرف کی سرپرستی میں پاکستان میں ایک ایسی روشن خیال اخلاقیات کو فروغ ملا جس کی کوکھ سے الحاد، لادینیت اور فحاشی کی آکاس بیل نے معاشرے کو گھیر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشرف ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود تمام لادین اور سیکولر جمہوری قوتوں کا ہمیشہ لاڈلا رہا۔ اس کا پاکستان میں وہی مقام ہے جو مغربی سیکولر دنیا میں ایچ جی ویلز کا تھا جس نے آکسفورڈ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’سیکولر ازم کو طاقت سے نافذ کرنا چاہئے‘‘۔ وہ مغرب کا بھی لاڈلا تھا۔ اسی کے بارے میں برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے امریکی صدر روز ویلٹ والا محاورہ اپنی اخبار میں دہرایا تھا۔ روز ویلٹ نے نکارا گوا کے ڈکٹیٹر انیسٹاسیو سموزا (Anastasio Somoza) کے بارے میں کہا تھا کہ "He is our son of bitch"۔ ڈیلی ٹیلیگراف نے یہی فقرہ مشرف کے بارے تحریر کیا تو اس کے پاکستان میں بیورو چیف انگبارڈ ولنکسن کو ملک بدر کر دیا گیا۔ امریکی یہ محاورہ شدید محبت کی علامت کے طور پر بولتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اس کا مطلب اور لیا جاتا ہے۔ مشرف نہ ہوتا تو شاید میں کالم نہ لکھتا۔ مَیں اپنی سول سروس کی نوکری کی پندرہ بہاریں دیکھ چکا تھا اور ابھی اس نوکری کے سولہ سال باقی تھے۔ اپنی تخلیقی پیاس بجھانے کے لئے، مَیں شاعری کرتا تھا، ایک مجموعہ کلام آ چکا تھا، ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے تحریر کرتا تھا اور نوکری بھی خوب چل رہی تھی۔ مشرف آ گیا۔ آغاز کے دو سال خاموشی سے گزر گئے۔ لیکن جیسے ہی گیارہ ستمبر 2001ء کا سانحہ ہوا اور مشرف امریکہ کے سامنے ایسے سرنگوں ہو گیا کہ جس کا یقین تو خود امریکیوں کو بھی نہیں تھا تو مجھے میرے اندر سے آواز آئی کہ آواز بلند کرو، لکھو، بولو۔ شاعری اور ڈرامہ میں بات تو ہو سکتی تھی لیکن وہ ڈھکے چھپے انداز میں ہوتی ہے، اب تو کھل کر بولنا اور لکھنا فرض ہو چکا تھا۔ بقیہ سولہ سالہ نوکری کا خیال بار بار دل میں آیا، خوف دلانے والے بھی بہت تھے، گوانتاموبے کی کہانیاں بھی سامنے تھیں، لیکن اللہ نے حوصلہ دیا، ہمت دی اور مَیں نے براہِ راست گفتگو کرنے، امریکہ کے خلاف لکھنے اور افغانستان میں جہاد کرنے والوں کے حق میں بات کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ پرویز مشرف نہ ہوتا تو مَیں شاید کالم نہ لکھتا اور آج ایک ایسے بیوروکریٹ کی زندگی گزار رہا ہوتا جو نوکری کے دوران تو مکمل خاموش رہتا ہے، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد حقائق منظر عام پر لانے لگتا ہے۔ مشرف چلا گیا۔ جب تک زندہ رہا، اس سے مقابلہ رہا، اس کے خلاف مسلسل لکھا اور مسلسل اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔ جس پر نہ کوئی ملال ہے اور نہ افسوس۔ وہ اب ایک ایسے جہان میں چلا گیا ہے جس کی سمت یہ پوری کائنات تیزی سے رواں دواں ہے۔ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’مرنے والوں کو بُرا مت کہو، کیونکہ جو اعمال انہوں نے آگے بھیجے وہ ان تک پہنچ چکے ہیں‘‘ (بخاری)۔ یہ تو روزِ حشر طے ہو گا کہ کون اپنے ساتھ کیسے اعمال لے کر آیا ہے۔ یہ حدیث ایک انسان کے ذاتی افعال و اعمال تک محدود ہے۔ جبکہ قوموں اور حکمرانوں کی بداعمالیوں، ظلم اور فرعونیت کے قصوں سے تو قرآنِ پاک کے صفحات اور احادیث کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ قصے ہر شخص کے انجام کی نشاندہی کرتے ہیں جو زمین پر بڑے بن بیٹھتے تھے اور پھر ان کا عبرتناک انجام آنے والے والی قوم کے لئے نشانی بنا دیا گیا تھا۔ مشرف کا انجام بھی اس بات کی گواہی ہے کہ زمین پر اَکڑ کر چلنے، طاقت پر غرور کرنے اور اقتدار کی کرسی کو آخری قوت سمجھنے والوں کا حال کیسا ہوتا ہے۔ غدّاری کا تحفہ اور دیارِ غیر کی موت۔