پائولو کویلہو دنیائے ادب کا ایک بڑا نام ہے۔اس نے عالمی ادب کو بہت سے ایسے ناول دئیے ہیں کہ دنیا بھر میں ادب کے چاہنے والے انہیں ذوق اور شوق سے پڑھتے اور انہیں سراہتے ہیں۔ان ناولوں میں الکیمسٹ، برائیڈا، گیارہواں منٹ، پانچواں پہاڑ اور بہت سے شہرہ آفاق ناول شامل ہیں۔ پائولو محبت پہ لکھتا ہے،جادو کی بات کرتا ہے،روحانیت سے روشناس کرتا ہے اور مہم جوئی کا دل دادہ ہے۔وہ تاریخ کے حوالے اس خوبصورتی سے دیتا ہے کہ انسان کو اپنے اجداد کے ماضی کی خبر ہو جاتی ہے دوسرا تاریخ کا مطالعہ وہ جس پس منظر میں کرتا ہے وہ بہت مختلف، انوکھا اور دل نشین انداز ہے، لگتا ہے کہ جانی پہچانی چیز بھی کوئی نئی چیز ہے،جس سے شاید آپ اب تک لا علم تھے۔اس کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔طرز تحریر اس قدر خوبصورت ہوتا ہے کہ پڑھتے ہوئے آدمی کھو جاتا ہے اور جب تک ناول ختم نہیں ہوتا اسے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔اس کی کتابوں کے تراجم دنیا کی جانی پہچانی تمام زبانوں میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔اس کی ہر کتاب میں ایک نیا پن نظر آتا ہے اور آدمی اس سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ فطرت کے بارے اس کا خیال ہے کہ وہ انسان کو بہت کچھ اشاروں کنایوں میں بتا دیتی ہے۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں اور فطرت کو جاننے کی کوشش کریں تا آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔آئندہ کی کافی حد تک خبر کہ جس سے آپ اندازہ لگا سکیں کہ کہ میرا اگلا قدم بہتری کی طرف اٹھے گا یا آپ کے لئے سود مند ہو گا یا نہیں، تھوڑی سی عقل اور فہم سے،ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ سب جان کر آپ اپنی ذات کو اسی حوالے سے تیار کر لیتے ہیں کہ جیسے فطرت چاہتی ہے۔ ایک بات یاد رکھیں فطرت کبھی کسی کا برا نہیں چاہتی۔پائولو کی کتابوں کے اقتباس حوالوں کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔آج میں آپ کو اس کی کتابوں کے کچھ چیدہ چیدہ حوالے بتا رہا ہوں۔ پائولو کہتا ہے: شروع شروع میں ایمان اور عقیدہ اندھیری رات ہوتا ہے۔انسان کے لئے ہر کام شروع میں اندھیری رات ہے لیکن جب وہ اس سے مانوس ہو جائے یا اندھیری رات سے گزر آئے تو وہ اپنے خوف کا خود مذاق اڑاتا ہے۔اجنبی سیس میں ہر کوئی اندھیری رات کا سامنا کرتا ہے لیکن آخر کار اس پتہ چلتا ہے کہ اندھیری رات تو دراصل رحمت تھی۔ کون ایسی عورت ہے جس کے پاس دس درہم ہوںاور ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑو نہ دے اور جب تک وہ درہم مل نہ جائے کوشش سے ڈھونڈتی نہ رہے اور جب مل جائے تو دوستوں اور پڑوسیوں کو بلا کر نہ کہے کہ میرا کھویا ہوا درہم مل گیا۔ میں تم سے کہتا ہوں اسی طرح ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خدا کو فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔ قدیم عراق یا بابل کی تاریخ کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہم حیران ہوتے ہیںکہ جادو وہاں باقاعدہ ایک علم تھا اور بابلی یا کالدی کے الفاظ جادوگر کے معنوں میں استعمال ہوتے تھے۔بعد میں بابل ہی سے جادو تمام مشرق میں پھیل گیا اور مسلمانوں تک پہنچا۔مصر قدیم کی تاریخ بھی ساحری سے تھی نہیںوہاں پر 3000 ق م میں ’’کتاب مردگاں‘‘ لکھی گئی جس میں روحوں کو حاضر کرنے ،امراض کا ولاج کرنے، دریائے نیل میں طغیانی لانے اور خوبصورت لڑکیوں کے دل جیتنے کے منتر بتائے گئے ہیں۔جادو کے متعلق ہمارے پاس یہ دنیا کی سب سے قدیم دستاویز ہے۔جادو کے متعلق کتاب ’’تی چنگ‘‘کنفیوشش سے کئی صدیوںقبل لکھی گئی تھی۔ ’’اتھرو وید کے منتر وادی سندھ کے دراوڑوں کی یاد دلاتے ہیں۔ ہند میں جادو کو ’’اگم بدیا‘‘ کہتے تھے۔جب ہم ہند کی قدیم داستانوںکا مطالعہ کرتے ہیںتو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قدیم ہندستان میں’’اگم بدیا‘‘ کے ماہر یعنی جادوگر چشم زدن میںآنکھوں سے غائب ہو سکتے تھے۔ برسوں کی مسافت لمحوں میں طے کر سکتے تھے۔۔ ماضی اور مستقبل میں جا سکتے تھے۔پانی پر چل سکتے تھے۔منتر پڑھ کر انسان کو پتھر کر سکتے تھے۔کھڑے کھڑے آم کا درخت اگا کر اس سے آم اتار کر کھلا سکتے تھے۔ جادو کے معنیٰ ہیںچارہ گری ، تدبیر شعبدہ ۔ جادو کو طلسم بھی کہتے ہیںجس کے معنیٰ ،حیرت میں ڈالنے والی بات کے ہیں۔لفظ سحر بھی جادو کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جس کے معنیٰ آسانی سے آمادہ عمل کرنا ہے۔روحوں کو کسی کام کے سنوارنے یا کسی کو ضرر پہنچانے کے لئے آمادہ کرنا۔شعبدہ بازی بھی سحر کے معنوں میں آتی ہے۔چونکہ جادو کا دارومدار منتروں پر ہوتا ہے اور منتر کے معنیٰ تدبیر یا افسوں کے ہیں،چنانچہ اس ساس رعایت سے جادو کرنے والے کو جادوگر یا افسوں گر کہتے ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ سے مکمل طور پر غلط نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ایک رکی ہوئی گھڑی بھی دن میں دو دفعہ صحیح وقت بتاتی ہے۔ انسان کوعطیات خداوندی تلاش کرنے چاہیں اور وہ ہیں حکمت،علم،عقیدہ،تندرستی،روبہ عمل معجزات،پیشین گوئی،روحوں کا ادراک،لوری یا زبان اور زبان کی تشریح یا ترجنانی۔ تقریباً پندرہ سو سال پہلے پجاریوں،کاہنوں اور پادریوں کے لئے جنگل ایک مقدس مقام ہوا کرتا تھاحتیٰ کہ سینٹ پیٹرک نے آئر لینڈ سے سانپ ہانک دئیے اور پجاریوں اور کاہنوںکی مذہبی رسومات کا خاتمہ ہو گیا۔پھر بھی اس مقام کی تحریم اور تکریم ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ آج بھی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جنگل کا احترام کرتے اور اس سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ ایک رومی باشندہ کبھی ایک ایسی عمارت میں داخل نہیں ہو گا۔جس پر صلیب کا نشان بنا ہو۔وہ سوچے گا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں تشدد کیا جاتا ہے۔کیونکہ صلیب نسل انسانی کے ان ہتھیاروںمیں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہے جس کے ذریعے بے پناہ تشدد اور بے تحاشہ ظلم کیا گیا۔صلیب میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی مگر اس کا مفہوم بدل گیا ہے۔ پہلی راہ جو اﷲکی اور نکلتی ہے ،وہ دعا ہے۔