میرے قارئین کو یاد ہو گا، میں نے اسی کالم میں پاکستان کے ایک بچے محمد علی کی بات کی تھی، وہ اس شہر کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے ، یہ غریب بچہ بڑے آدمی بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس کا گھر خستہ ہے، کھانے کو روٹی کم ہے، برگر آئس کریم پیزا جیسی لذیذ مراعات اسے میسر نہیں۔اسے تو دو وقت کا کھانا ہی مناسب مل جائے تو بڑی بات ہے۔اس میں غیر معمولی بات یہ ہے کہ آواز پاس خوشحالی دیکھ کر اپنی غربت پر سوال اٹھاتا ہے۔میرے لئے محمد علی ایک فرد نہیں بلکہ پاکستان کے ان تمام غریب بچوں کی نمائندگی کرتا ہے، جو غربت کے گہوارے میں پیدا ہوئے مگر ان کی آنکھوں میں بھی سہانے مستقبل کے خواب ہیں، وہ بڑا آدمی بننے کے خواب دیکھتے ہیں ،وہ اپنے خستہ حال، تاریک گرم مکانوں میں موسموں کی شدت سہتے ہوئے اچھے دنوں کے خواب دیکھنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اسی خوفناک غربت اور معاشی تنگی میں رہتے ہوئے اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر پائیں گے؟محمد علی اور اس جیسے کروڑوں غریب بچوں کا مجرم ہر وہ اہل اختیار ہے،جس نے پالیسیاں بناتے وقت محمد علی کے خوابوں کو نظر انداز کیا۔ محمد علی کا مجرم ہر وہ سیاستدان ، ہر وہ جنرل اور جج ہے جس نے اس ملک کا ایسا نظام بننے میں اپنا حصہ ڈالا جو خوفناک معاشی نا انصافی پر مبنی ہے۔ زندگی کی سہولتوں ،آسودگیوں کو۔محمد علی تک جانے سے روکتا ہے۔محمد علی کا مجرم پاکستان کا وہ اہل اختیار طبقہ ہے، جو ایک پیراسائٹ کی طرح پاکستان کے خزانے کو چمٹا ہوا ہے۔ اس بے حس پیراسائٹ طبقے کی بہترین نمائندگی اس وقت سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کر رہے ہیں۔ حال ہی میں چیئرمین۔سینٹ ڈپٹی چیئرمین کے لیے تاحیات مراعات کا بل پاس کیا گیا، جس نے پاکستان کے غریب طبقہ کے دلوں میں آگ لگا دی، یہ ایک ایسی خبر ہے جس کی جس قدر سخت الفاظ میں مذمت کی جائے کم ہے۔ کالم لکھتے ہوئے اس بے حسی پر غم و غصے کا اظہار اس شدت سے نہیں ہوسکتا، جو دراصل اس انتہائی درجے کی مفاد پرستی اور سنگ دلی پر دل نے محسوس کی ہے۔ سچ پوچھیں تو قومی زندگی کے ایسے کرداروں پر میں بھی یر اس پاکستانی کی طرح لعنت بھیجتی ہوں جو گھمبیر معاشی مسائل میں گھرا ہوا اس قسم کی خبریں سنتا ہے۔بمشکل اپنے دن کی ایک وقت کی روٹی پورا کرنے والا پاکستانی جب لاکھوں کی عیاشی اور مراعات کی خبریں سنتا ہے تو یہ اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ مجھے ان بے حسوں پر پر پتھروں کا کمان ہوتا ہے۔یہ پتھر اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس وقت پاکستان کے سخت ترین معاشی حالات میں غریب پاکستانی حسرتوں اور اذیتوں کے کون سے صحرا پار کر رہا ہے۔ اس وقت جب کہ پاکستان کے غریب کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک وقت کا مناسب کھانا کھانے سے قاصر ہے اور پاکستان کا ساٹھ فیصد طبقہ خط غربت میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ یہ طبقہ ہر روز صبح اٹھ کر اپنے بچوں کی خواہشوں کو حسرتوں میں بدلتا ہوا دیکھتا ہے۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے چاغی سے ہے کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوا م پینا ڈول کی گولی کے لیے بھی ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔غریب وطن علاج کے لیے پیسے نہ ہونے پر ایڑیاں رگڑتامرجاتا ہے۔ لیکن چیئرمین سینٹ کے سارے خاندان کو سرکاری خرچ پر بہترین ہسپتالوں میں علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے افراد پاکستان کے دولت مند ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس امیر ترین طبقہ کے لئے پاکستان کے خزانے سے مزید اور تاحیات مراعات کا اعلان سمجھ سے باہر ہے اس کو پیش کرنے والوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سنیٹرزبھی شامل ہیں،سوائے تحریک انصاف کے سنیٹرز کے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ پاکستان اس لیے مسائل کی دلدل سے نہیں نکلتا کہ مفاد اور مراعات کے نام پر تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭