لاپتہ افراد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم کئی حلقوں کی طرف سے شروع ہے ۔سر پرستی وہ کر رہے ہیں جو مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ ترازو میں برابر دیکھنا چاہتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف برسوں سے بر سر پیکار ریاست کی سکیورٹی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ،یہ سمجھے بنا کہ حقائق کی دوسری تصویر کیا ہے ۔ جبری گمشدگی کا ایک مطلب کسی ایسے شخص کو جسے کسی بھی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے سویلین یا فوجی کنٹرول میں کام کرتے ہوئے حراست میں لیا ہو، اور حراست کا یہ طریقہ جو قانون کے خلاف ہو۔ وہ افراد جو اغوا برائے تاوان، ذاتی دشمنی یا اپنے طور پر لاپتہ ہوئے ہیں، جبری گمشدگی کے دائرے میں نہیں آتے۔پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو از خود گھر چھوڑ کر گئے اور کسی جرائم پیشہ یا تشدد پسند تنظیم میں شامل ہو گئے۔ان میں سے کئی خود کو لاپتہ مشہور کر دیتے ہیں ۔ کسی ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کی نگرانی ہر قومی انسانی حقوق کے ادارے (NHRI) کا کلیدی کردار ہے۔ اس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینا اور ان کا ازالہ کرنا ہے اور ایسے قوانین اور پالیسیوں کی اصلاح کو فروغ دینا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب روکیں ۔پاکستان میں لاپتہ افراد کمیشن کا قیام اسی سلسلے میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔ جبری گمشدگی کو اکثر معاشرے میں دہشت پھیلانے کی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرز عمل سے پیدا ہونے والا عدم تحفظ کا احساس صرف لاپتہ افراد کے قریبی رشتہ داروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اثر ان کی برادریوں اور مجموعی طور پر معاشرہ پر پڑتا ہے۔دہشت گرد عناصر اس احساس کو نئے لوگ بھرتی کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے گزشتہ برس دسمبر میں کہا کہ ان کا دل بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ روزانہ صدمے سے گزر رہے ہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اصولوں پر چلنا پسند کرتے ہیں۔ نئی حکومت میں ایسے سیاسی نمائندے شامل ہیں جو چاہتے ہیں کہان کے علاقوں میں لا پتہ ہونے کے واقعات نہ ہوں۔ ایسا کرنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب ایک اعلیٰ فوجی افسر کہتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے دردمحسوس کرتا ہے، اور نیا سربراہ ایسا شخص ہے جس کے پاس اخلاقی کمپاس مضبوط ہو۔ ایک ہی ادارے میں نیک نیتی کے حامل دو افراد لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو بہت سے مصائب اور روزمرہ کے درد سے بچا نے کا عزم رکھتے ہیں۔ سیاسی قیادت بھی لاپتہ افراد کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے خود کوئٹہ میں میڈیا کو بتایا کہ وہ متعلقہ حکام سے اس بارے میں بات کریں گے اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ لاپتہ بلوچ افراد کے احتجاج کرنے والے خاندانوں سے ملاقات کے لیے کوئٹہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل تمام لاپتہ افراد کی رہائی اور 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد سے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے مجرمانہ عمل کو ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ لاپتہ افراد کے معاملے کے سٹیک ہولڈرز اس مسئلے پر آپس میں مل کر کام کرنا چاہتے ہوں تو اور کیا چاہیے؟ لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے اپنے پیاروں کی تلاش میں لانگ مارچ سے لے کر پاکستان کے ہر بڑے شہر کے پریس کلب کے سامنے احتجاج تک ہر مشکل کو برداشت کیا ہے۔ سیمی بلوچ اور علی حیدر سمیت کئی بچے اپنے باپ کی رہائی کے لیے احتجاجی کیمپوں میں پلے بڑھے۔ اس تلاشی کے دوران انہیں مختلف صوبوں کے پولیس اہلکاروں سے واستہ پڑا۔وہ حکومت کی طرف سے جواب کے مستحق ہیں ۔ دوسری طرف ایک پروپیگنڈہ تسلسل کے ساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ بلوچ نوجوان تنازعات کے درمیان پروان چڑھے ہیں اور ہر نوجوان بلوچ کا ایک دوست ہوتا ہے جو لاپتہ ہو گیا اور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ایسی کہانیوں کا کئی بار نتیجہ حیران کن نظر آتا ہے جب لاپتہ شخص کسی واردات میں پکڑا جاتا ہے یا بہرون ملک اس کی موجودگی کی خبر ملتی ہے۔ پاکستان بزنس فورم بلوچستان (پی بی ایف) چیپٹر کے چیئرمین دارو خان اچکزئیکا کہنا ہے کہ صوبے میں تیل، کوئلہ، سونے، تانبے اور گیس کے ذخائر سمیت قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔ اس دولت پر قبضہ کے لئے لوگوں کو ریاست سے بر گشتہ کیا جاتا ہے ۔ لاپتہ افراد کا معاملہ صرف سکیورٹی اداروں کا پیدا کردہ نہیں ،یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ،دنیا کے بہت سے ممالک میں صورتحال پاکستان سے زیادہ خراب ہے ۔اس کی ایک مثال 1996 کا ڈیٹن معاہدہ ہے، جس کے ذریعے لاپتہ افراد سے متعلق بین الاقوامی کمیشن 1991 سے 1995 کے درمیان بلقان کے مسلح تصادم کے تناظر میں لاپتہ ہونے والے تقریباً 40,000 افراد کی تلاش کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ نیپال میں، جہاں تقریباً 1300 لاپتہ ہوئے تھے، حکومت اور ماؤ نواز فورسز کے درمیان 2006 کے امن معاہدوں کے ایک دہائی بعد جبری گمشدہ افراد پر تحقیقات کا کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ کولمبیا کی حکومت اور ایف اے آر سی کے درمیان 2016 کے ہوانا معاہدوں کے نتیجے میں لاپتہ افراد کے لیے سرچ یونٹ کا قیام عمل میں آیا تاکہ لاپتہ افراد کی تلاش اور ان کی لوکلائزیشن میں انسانی ہمدردی کی کارروائیوں میں ہم آہنگی اور تعاون کیا جا سکے۔ لاپتہ افراد اور ان کے خاندان ہمدردی کے مستحق ہیں ۔یہ مسئلہ سکیورٹی اداروں اور سیاسی قیادت کی مشارت سے طے ہونا چاہئے لیکن اس کی آڑ میں ریاست کے خلاف مجرمانہ چارج شیٹ صرف دشمن کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔