یہاں نرگسیت ہے، خوابوں کی سرزمین ہے تخیل کے بادشاہ ہیں وہ کیا برٹش کے ساتھ ایک ادیب آیا تھا جب وہ یہاں پہنچا تو بے ساختہ بولا دیوانگی ہے برصغیر کی فضاؤں میں۔ انسان گمشدگی میں چلا جاتا ہے بھول جاتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ آثار قدیمہ سے ہتھیار تک نہیں ملے ساز موسیقی رقص اسی طرح سے ادیب شاعر بھی ہوں گے حالانکہ یہاں کا موسم صدیوں سے بے اعتبار رہا ہے۔ ہر سال رنگ بدلتا ہے اور موجودگی کا احساس بھی دیتا ہے، دکھ دینے والا ہی مسیحا ہے اور مسیحا کے دکھ بھی نہیں دیکھے جاتے ۔ موجودہ برصغیر میں بھارت پاکستان بنگلہ دیش بھوٹان مالدیپ نیپال سری لنکا شامل ہیں۔ برصغیر ایشیا میں ہی ہے مگر ہے اس سے الگ تھلگ۔ پہلے یہ مڈ گاسکر پلیٹ سے جڑا ہوا تھا پھر یہ شمال کی طرف یورازین پلیٹ کی طرف جا پہنچا۔ شاید اسی وجہ سے ہمالیہ قراقرم کے پہاڑ موجود ہیں کیونکہ تاریخ سے ہمیں کوئی خاص دلچسپی ہی نہیں بلکہ نہ ریاضی سے نہ سائنس سے۔ اس کا اندازہ ہماری موجودہ حالت سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ برصغیری سفر نہیں کرتے آج بھی میرے علاقے میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں ایک بزرگ ملے وہ بتا رہے تھے کہ وہ آج تک شہر نہیں گئے جو کوئی 30 کلو میٹر کے فاصلے پر ہی ہوگا اور وہ بالکل مطمئن بھی تھے۔ آج بھی بہت ساری جگہیں ایسی ہیں کہ آپ وہاں جا کر کوئی بھی سوال کریں گے تو وہ آگے سے کسی بڑے زمیندار یا جاگیردار چوہدری کا نام لیں گے کہ انہیں پتہ ہے۔چند سال قبل افریقہ کے جنگلوں سے کچھ انسان ملے جنہیں باہر کی دنیا کا بالکل ہی پتہ نہیں تھا اور وہ ہر چیز کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔ بر صغیر والوں سے جدید علم چھپایا گیا یا پھر وہ خود ہی حاصل نہیں کرنا چاہتے یہ راز آج تک منکشف نہ ہوا۔ خاندان پھر قبیلے موجودہ برادری ازم کو ہی دنیا اور زندگی سمجھتے ہیں۔ قبیلے کے سربراہ یا چوہدری کا فیصلہ گھر کے بڑے بزرگ کا فیصلہ حرف آخر ہی تصور کیا جاتا ہے یعنی زندگی کس کے ساتھ اور کیسی گزارنی ہے اس کا فیصلہ سربراہ کرے گا۔ صدیوں سے خاندانی نظام رائج ہے بال سفید ہونے کی دیر ہے پھر اسے تمام اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ ایک ڈر ہے کہ اگر یہ روایات ہم سے چھن گئیں تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جتنے بھی حملہ آور آئے وہ انہیں محکوم تو بنا سکے مگر انہیں تبدیل نہ کر سکے اور نہ ہی خود ان کے رنگ میں رنگ سکے۔ آج بھی پوری دنیا سے یہ الگ تھلگ ہیں اپنے ہاتھوں سے اپنا رہبر منتخب کرتے ہیں اور وہ ان کے سامنے انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہا ہوتا ہے اور پھر جب وہ صاحب حیثیت ہو جاتا ہے تو بدقسمتی کی انتہا اس کی ایسی حیثیت کو اس کا حق تصور کرتے ہیں اور آگے اختیارات اقتدار کی حیثیت اپنی اگلی نسل کو منتقلی بھی انہی کا حق تصور کرتے ہیں۔ برٹش یہاں کیوں راج کر گئے برصغیر کی واضح خوفناک کمزوریوں کی وجہ سے کیا اشرافیہ نے غداریاں نہیں کیں اقتدار انہوں نے چند چودھریوں کے ذریعے ہی چلایا حالانکہ فوج نہیں تھی سول فورسز کے ذریعے کنٹرول کیا اور درمیانے طبقے کے جوان بھرتی کیے جنہیں حکم تھا کہ بڑے لوگوں سے پنگا نہیں لینا ان کے کام کرنے ہیں اور اپنے جیسوں کو جبر کا نشانہ بنانا ہے جو بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے انہیں اشرافیہ کے ذریعے اور اسی مڈل کلاس بھرتی فورسز کے ذریعے دبایا یعنی ان کی سوچ تھی کہ مڈل کلاس ہی مڈل کلاس پر ظلم یا سفاکیت کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور لالچ کیا تھا سپاہی کو حوالدار بنا دیا اس زمانے میں حوالدار کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ مجھے اس لیے بھی معلوم ہے کہ میرے دادا جان حوالدار تھے میں نے ان سے پوچھا ترقی کی وجہ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے برٹش راج تو نہیں دیکھا لیکن بالکل ایسا ہی تھا انہیں ترقی ایک ڈاکو کو پکڑنے پر ملی تھی جو بڑا نامی گرامی تھا اور سخاوت بھی کرتا تھا ایسی عکاسی آپ کو پرانی انڈین یا پاکستانی فلموں میں بھی ملے گی۔ آج بھی آپ دیکھ لیں مڈل کلاس ہی مڈل کلاس پر ظلم کر رہی ہے اور بڑے دھڑلے سے ظلم ہو رہا ہے کسی چوھدری کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا برٹش بڑے ذہین تھے موجیں لگی ہوئی تھیں ان کی ایک گونج ہے قیاس ہے کہ بہت بڑی تعداد جو دوسری عالمی جنگ میں حصہ لے چکی تھی وہ واپس برصغیر آ چکی تھی یعنی ریٹائرڈ تھی ان سے ڈر تھا کہ کہیں یہ حریت کی کوئی چنگاری نہ بن جائیں۔ ظاہر ہے وہ تجربہ کار تو تھے ہی منو بھائی یاد آئے انہوں نے برٹش ایمبیسی میں ویزا اپلائی کیا انٹرویو آگیا وہ گئے اور آفیسر سے کہا ویسے مجھے اپلائی تو نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ آپ نے کون سا ہمیں آزادی دی ہے تو آگے سے اس آفیسر نے کہا کہ 1947ء میں ہم نے آپ کو چابیاں دے دی تھیں منو بھائی نے کہا نہیں سر ہمیں نہیں دی تھیں 22 خاندانوں کو دی تھیں آج بھی انہی کی نسلیں حکمران ہیں تو اس آفیسر نے ویزا لگا دیا تھا بڑے بڑے لیڈر آئے رہنما آئے اور آتے رہیں گے اپنا الو سیدھا کریں گے اور چلتے بنیں گے چونکہ صدیوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہماری ہی سرزمین تھی پھر وہ کیسے من پسند تقسیم کرتے رہے اسی تناسب سے عہدے مراعات دیتے رہے حیران تو ہونگے کیسا خطہ ہے اور آج بھی چند لوگ اسی سابقہ تاج برطانیہ میں بیٹھ کر یہی سوچتے ہونگے کہ کیسا خطہ ہے برٹش نے چابیاں انہی کو دی جو آج بھی حکومت مراعات یہاں سے لیتے ہیں اور سب کچھ واپس انہی کے پاس لے جاتے ہیں اور وہ انکی حفاظت بھی کرتے ہیں ۔