آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زادکے درمیان ملاقات میں طے شدہ مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ملاقات میں افغان مہاجرین اور پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے امور بھی زیر غور آئے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کے بعد اس خطے میں امن و امان کی صورتحال پہلے سے تسلی بخش ہے۔ افغان طالبان نہ صرف معاہدے پر قائم ہیں بلکہ معاہدے میں طے پانے والی تمام شقوں اور انکی جزئیات کی پاسداری بھی کر رہے ہیں ۔ امریکہ کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی دیکھنے میں آئی ہے۔ چار روز قبل امریکی فضائیہ نے افغان فوج کو بچانے کے لئے فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25طالبان جاں بحق ہوئے جبکہ قندھار پر بھی فضائی حملے کئے گئے۔بعض مبصرین نے اس پر امریکی حکام کو خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے 29فروری والا معاہدہ توڑا تو طالبان کابل پر دھاوا بول دیں گے، یوں ایک بار پھر خطہ بدامنی کی آماجگاہ بن جائے گا۔اس فضائی حملے پر افغان طالبان نے فی الفور واشنگٹن سے بات چیت بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں ہی امریکی نمائندہ خصوصی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان 19برس کی گوریلا جنگ کے بعد مزید جنگ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ امریکی صدر اپنی قوم سے کئے وعدے کے مطابق اپنی افواج واپس بلا رہے ہیں۔ امریکہ نے 11برس میں کھربوں ڈالر اس لاحاصل جنگ میں جھونکے ہیں، اگر وہ یہ رقم اپنے عوام پر خرچ کرتا تو آج کورونا وائرس کے باعث امریکہ میں اتنی ہلاکتیں نہ ہوتیں۔ امریکی صدر ٹرمپ قبل از وقت فوج کو افغانستان سے نکال کر آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جولائی تک مکمل انخلا کا اعلان کر دیا ہے۔امریکی افواج کا انخلا جوں جوں نزدیک آ رہا ہے تخت کابل پر بیٹھے اشرف غنی کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ اشرف غنی پہلے تو طالبان قیدیوں کو کسی طرح بھی رہا کرنے پر راضی نہ تھے،اب نہ صرف انہوں نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ بین الافغان مذاکرات کے لئے بھی تیار ہو گئے ہیں۔ اپنی کمزوری کا اندازہ لگا کر ہی اشرف غنی نے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ شراکت اقتدار کیا ہے تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اسے آسانی ہو۔ افغان طالبان نے عیدالفطر کے دنوں میں مکمل فائر بندی کا اعلان کیا تھا جسے نہ صرف افغان عوام بلکہ پوری دنیا کی طرف سے پذیرائی ملی ہے۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت طالبان نے افغان فوجیوں کو رہا کیا جبکہ کابل حکومت بھی اس معاہدے کے تحت طالبان کے قیدی رہا کر رہی ہے۔ افغان حکومت نے 2ہزار 711طالبان قیدی رہا کر دیے ہیں جبکہ مزید ایک ہزار قیدی رہا کرنے کا اعلان کیاہے۔ جس کے بعد یہ تعداد چار ہزار کے قریب پہنچ جائے گی بلکہ معاہدے میں طے پانے والے اصول کے مطابق باقی صرف 12سے تیرہ سو قیدی رہ جائیں گے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو افغانستان میں تمام متحارب گروپ اب صلح اور امن کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ 72گھنٹوں میں درجنوں سرکاری اہلکاروں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بلخ، پکتیکااور لوگر اضلاع میں 56اہلکار طالبان سے آ ملے ہیں جبکہ دن بدن اس تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے بھی اپنی عسکری کمان میں تبدیلی لاتے ہوئے ملا یعقوب کو کمانڈر انچیف بنا دیا ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ طالبان اپنی حکومت کے قیام سے قبل عہدیداروں کا چنائو مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ جب وہ کابل داخل ہوں تو انہیں کابینہ یا شوریٰ بنانے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ پاکستان اس حوالے سے بھی بڑا اہم ہے کیونکہ چند روز قبل امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ 19برس کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لئے پولیسنگ کریں۔ جس کے بعد یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ امریکہ جلدازجلد خطے سے انخلا چاہتا ہے۔ صاف ظاہر ہے امریکہ کو انخلا کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے،اسی بنا پر زلمے خلیل زاد نے طے شدہ مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے آرمی چیف سے بات چیت کی ہے۔رہی بات پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کی تو پاک فوج پہلے ہی اس بارڈر پر باڑ نصب کر کے دہشت گردوں اور سمگلروں کے راستے بند کر چکی ہے ۔ بارڈر پر قلعے تعمیر کئے جا رہے ہیں تاکہ بارڈر پر حفاظتی انتظامات کو بہتر کیا جا سکے۔ امریکی صدر ٹرمپ جس جلدی سے اپنی افواج کا انخلا کر رہے ہیں اسی جلدی سے بین الافغان مذاکرات بھی شروع کرنے چاہئیں کیونکہ امریکی افواج نے انخلا کے بعد کابل انتظامیہ طالبان کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گی۔ یوں دوبارہ قبائل کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ سے لیس ہونا پڑے۔ جو حالات کو مزید خراب کرے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امن معاہدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کروائیں تاکہ امریکی انخلا کے ساتھ ہی کابل کے تخت کو سنبھالنے کے لئے ایک مضبوط ڈھانچہ موجود ہو جس میں طالبان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود تمام قبائلی اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہو۔ جو افغانستان کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے مثالی کردار ادا کر کے اس خطے کو گل و گلزار بنانے کے ساتھ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے بھی کام کریں تاکہ افغان عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔