امریکی فیڈرل بیورو آف امیگریشن (ایف بی آئی) کی ٹیمیں 21 اکتوبر 2014ء کو واشنگٹن کے ایک گھر میں داخل ہوئیں اور پورے گھر کی تفصیلی تلاشی لی گئی۔ اس آپریشن کو ان کی زبان میں "Sneak and Peek" (جھانکنا اور ڈھونڈنا) کہتے ہیں۔ وہ اس گھر سے لاتعداد بکسے اور بیگ اپنے ساتھ لے گئے جن کے بارے میں انہوں نے بعد میں بتایا کہ ان میں سے بیس سال پرانی امریکی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔ یہ گھر امریکی سفارت کار اور پاکستان، افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک کے حوالے سے کئی سال تک اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والی شخصیت رابن رافیل کا تھا۔ رابن رافیل پر یہ الزام تھا کہ اس نے امریکہ کے کچھ اہم راز پاکستانی حکومت کے افراد کو فراہم کئے ہیں۔ ایف بی آئی نے بتایا کہ فروری 2013ء میں رابن رافیل کی کچھ پاکستانی شخصیات کے ساتھ فون پر گفتگو، ای میلز یہاں تک کہ اسکے سوشل میڈیا کے اکائونٹ اور سکائپ وغیرہ سے ایسا مواد موصول ہوا تھا، جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ پاکستان کی اہم شخصیات کو امریکہ کی خفیہ معلومات بتا کر ان کیلئے جاسوسی کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایف بی آئی کے اس چھاپے کے ساتھ ہی رابن رافیل کی سکیورٹی کلیرنس ختم کر دی گئی اور اسکے دفتر پر تالہ لگا کر اسے جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔ اس کا امریکی دفتر خارجہ کے ساتھ کنٹریکٹ 2 نومبر 2014ء کو ختم ہو رہا تھا، اسے بھی مزید نہیں بڑھایا گیا۔ رابن رافیل پورا ایک سال تک ایف بی آئی کی اس تفتیش کا سامنا کرتی رہی۔ ایف بی آئی والے اسے مجبور کرتے رہے کہ وہ عدالت کے سامنے اپنے اس جرم کا اقرار کر لے کہ اس نے پاکستان کیلئے جاسوسی کی ہے، کیونکہ اس کے گھر میں بیس سال پرانے خفیہ کاغذات کی موجودگی اور فون پر گفتگو کا اور کوئی جواز نہیں ہے۔ ایف بی آئی نے امریکی محکمہ انصاف کو اسکے متعلق مواد فراہم کر دیا تاکہ وہ اس پر جاسوسی کے الزام میں مقدمہ آگے بڑھائے۔ لیکن صرف کاغذات کی موجودگی اور ٹیلیفون کی گفتگو سے زیادہ شواہد نہ مل سکے اور 2015ء میں رابن رافیل کے وکیل کو یہ تو بتا دیا گیا کہ اس پر جاسوسی کا مقدمہ نہیں چلے گا، لیکن تفتیش پھر بھی جاری رکھی گئی۔ ٹھیک ایک سال بعد محکمہ انصاف نے اپنی تفتیش یہ کہہ کر ختم کر دی کہ ہمیں عدالت میں مقدمہ چلانے کیلئے مناسب ثبوت نہیں مل سکے۔ ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں مارے جانے والے امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی بیوی رابن رافیل، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے بہت اہم امریکی شخصیت ہے۔ اس نے اپنی نوکری کا آغاز مشہور امریکی خفیہ ایجنسی ’’سی آئی اے‘‘ کے ساتھ ایک تجزیہ کار (Analyst) کے طور پر کیا تھا۔ سی آئی اے میں اس کی بھرتی کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں اپنی ڈگری حاصل کی تو اسکے فوراً بعد وہ 1970ء میں تہران (ایران) کے ایک خواتین کے کالج جس کا نام ’’دماوند کالج‘‘ تھا، اس میں دو سال تاریخ پڑھاتی رہی۔ اسکے بعد وہ پاکستان میں موجود ’’یو ایس ایڈ‘‘ کے پروگرام میں ایک ماہر تجزیہ کار کی حیثیت سے نوکری کرنے لگی۔ ایران، پاکستان کے اس اہم تجربے اور پھر سی آئی اے میں تعیناتی۔ یہ تمام سیڑھیاں چڑھتی ہوئی رابن رافیل نے 1978ء میں امریکی وزارتِ خارجہ میں بحیثیت سفارتکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ نوکری کے کم از کم پہلے دس سال کا عرصہ وہ لاتعداد سفارت خانوں میں تعینات رہی۔ جب اس کا شوہر ضیاء الحق کے ساتھ طیارے میں مارا گیا، وہ اسوقت جنوبی افریقہ کے امریکی سفارت خانے میں تھی۔ وہ اکثر پاکستان آیا کرتی اور بحیثیت ایک سفیر کی بیوی، اسکے پاکستان کے حکومتی اور دیگر افراد سے اچھے خاصے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ ایران اور پاکستان کے تجربے کے بعد اسے 1991ء میں دلّی میں امریکی سفارت خانے میں سیاسی نمائندہ (Political Counciler) کے طور پر تعینات کیا گیا۔ اسکی سفارت کاری کا یہ ابتدائی دور ایسا تھا جب امریکہ پاکستان کے توسط سے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑ رہا تھا، ساتھ ہی پڑوس میں ایران تھا، جہاں آیت اللہ خمینی کے انقلاب نے اس ملک کو امریکیوں کیلئے ’’نو گو ایریا‘‘ بنا رکھا تھا۔ سوویت یونین کی افواج جب افغانستان سے رخصت ہوئیں تو آخری روسی سپاہی کے 15 فروری 1989ء کو نکلتے ہی امریکی امداد کے سارے اداروں اور عالمی سماجی اور رفاحی تنظیموں نے بھی وہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹا اور چلتے بنے۔ سوویت یونین بکھرا تو امریکی بھی اس خطے سے تقریباً لاتعلق ہوتے چلے گئے۔ امریکی اب پاکستانی حکمرانوں کو زبردستی مجبور کر کے افغانستان میں ایسی حکومتیں بنوانے میں لگے ہوئے تھے جن سے وہاں مزید بدامنی اور خون خرابہ پیدا ہو۔ اسکی اہم ترین مثال نواز شریف کی پشاور میں افغان حکومت سازی کی وہ میٹنگ ہے جس میں تقریباً یہ طے ہو گیا تھا کہ مجاہدین کے کون سے بڑے گروہ مل کر حکومت بنائیں گے، مگر اچانک میٹنگ کے دوران آنے والی ایک اہم امریکی سفارت کار کی کال سے سارا نقشہ ہی بدل گیا اور مجاہدین کے ایک غیر اہم گروہ ’’جبّہ نجات ملی‘‘ (نیشنل لبریشن فرنٹ) کے سربراہ صبغت اللہ مجددی کو ناروے کی مسجد سے بلا کر 28 اپریل 1992ء کو افغانستان کا عبوری سربراہ بنا دیا گیا۔ اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجددی ان علمائے کرام میں سے تھا جو مغرب کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ وہ شہنشاہیت کو واپس لا کر اسکے زیرسایہ ایک اسلامی ریپبلک چاہتا تھا۔ پاکستان کی اب ضرورت اسقدر باقی نہیں رہی تھی مگر امریکہ کی آنکھوں میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹک رہا تھا۔ پاکستان نے ابھی تک ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تھا لیکن مارچ 1987ء میں جب ’’مسلم‘‘ اخبار کے ایڈیٹر مشاہد حسین سیّد نے بھارتی صحافی کلدیپ نیئر سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا 70 منٹ طویل انٹرویو کروایا، جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ ’’ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہو‘‘۔ جیسے ہی یہ انٹرویو لندن ’’آبزرور‘‘ میں چھپا تو پوری دُنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔ دنیا بھر کو شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ پاکستان ایک غیر اعلانیہ ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ انہی بدلتے ہوئے حالات میں امریکی وزارت خارجہ نے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی و سنٹرل ایشین افیئرز کی ایک نئی پوسٹ تخلیق کی جس کے مقاصد میں افغانستان کے ابھرتے مسائل، پاکستان بھارت کشمکش، جمہوریت کا فروغ، ایٹمی ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی، اسلامی شدت پسندی، غربت اور حقوقِ نسواں کا تحفظ شامل تھا۔ یہی وہ ماہ و سال تھے جب افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے، خصوصاً قندھار میں افغانستان میں جاری خونریزی اور قتل و غارت کے خلاف ایک ردّعمل منظم ہو رہا تھا اور ایک گروہ ملا محمد عمرؒ کی قیادت میں حالات کو بدلنے کیلئے تدبیریں سوچ رہا تھا۔ رابن رافیل کو اسی دور میں ہم نے پہلی دفعہ کوئٹہ کی سڑکوں اور سرینا ہوٹل کی لابیوں میں بار بار دیکھا اور سرکاری میٹنگوں میں اسکی بے تکان گفتگو سے امریکیوں کے ’’مبینہ‘‘ ارادے سے آگہی حاصل ہوئی۔ ملا محمد عمرؒ کے طالبان کی افغانستان پر حکومت قائم ہوئی تو رابن رافیل کا جیسے ٹھکانہ ہی کوئٹہ اور ملحقہ افغانستان بن گیا۔ (جاری ہے)