محترم استاد دانشور احمد جاوید صاحب کا فرمانا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سوائے خلا کے کچھ منتقل نہیں کرسکے۔پاکستان کے مہنگے سکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں سے گفتگو کریں تو آپ کو اس حقیقت کا اندازہ ہوگا کہ گرامر اسکولوں سے پڑھنے والے طالب علموں کا اپنی قومی زبان زبان میں موجود شعر و ادب اور اس میں بیان کی ہوئی تہذیب وثقافت سے کوئی ذہنی اور قلبی تعلق نہیں ہے۔جب اسکولوں میں اردو بولنے پر جرمانہ ہوگا اور اپنی قومی زبان میں گفتگو کو معیوب سمجھا جائے گا وہاں طالب علموں کی ذہنی تربیت اسی طرح کی ہوگی کہ وہ اپنی ہی شناخت پر شرمندہ ہوں گے۔۔کیا ہمیں اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں کی پالیسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیے یا پھر اس حوالے سے ازخود کچھ کرنا چاہیے۔ میں ان والدین میں سے ہوں جو اپنے طور پر کوشش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ہواؤں کا رخ کیسا بھی ہو لیکن اپنی کوشش کا چراغ ضرور جلاتے رہیں میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ میرے بیٹے کو اردو زبان اچھی لگے اور وہ اردو زبان کا ادب پڑھے اور اس میں بیان کی ہوئی تہذیبی فضا سے اس کا ذہنی اور قلبی تعلق پیدا ہو۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اردو ادب پڑھے اردو کی شاعری میں دلچسپی لے لیکن بدقسمتی سے مشاہدہ یہی ہے کہ چھٹی ساتویں کے بچے انگریزی زبان کے تو ضخیم ناول بھی پڑھ لیں گے لیکن اردو زبان کے چند پیراگراف پڑھنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ دانیال کا فیروز اللغات سے تعارف تو ایک سال بیشتر ہی ہو چکا تھا۔جب خاص طور پر اس کا نیا نسخہ خریدا تھا ۔ان دنوں فیروز اللغات ہم نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی ہے۔اور دن میں ایک دو دفعہ اس کو کھولنا اور اس میں سے کچھ نہ کچھ لفظ تلاش کرنا ایک مشغلہ کی صورت اختیار کر گیا ہیفیروز اللغات سے کسی ایک لفظ کا معنی ڈھونڈنے میںصاحبزادے کافی جھنجھلاجاتے ہیں اور بقول ان کے یہ کام بہت بورنگ ہے۔اس سرگرمی کو دلچسپ اور ہلکا پھلکا رکھنے کے لیے اس کو ایک کھیل کا درجہ دے دیتے ہیں، کبھی لفظ کا معنی میں ڈھونڈتی ہوں اور کبھی معنی صاحب زادے تلاش کرتے ہیں ۔ان مشقوں سے اگرچہ سست روی سے ہی سہی مگر دانیال اردو زبان کے حرف و لفظ کے خزانے سے متعارف ہو رہا ہے۔ میرے پاس لائبریری میں اقبال اکادمی لاہور کا شائع کردہ کلیات اقبال کا ایک نسخہ پیکنگ میں موجود تھا۔ اس میں حضرت علامہ اقبال کے ہاتھ کے لکھائی کا عکس بھی موجود ہے۔چند ہفتے پہلے میں نے یہ کلیات دانیال کو دی اور کہا کہ یہ آپ کے لیے ایک خاص تحفہ ہے اس پر اپنا نام لکھو اور اسے اپنی کتابوں میں حفاظت سے رکھو ہم اس پڑھا کریں گے۔ علامہ اقبال کی نظم شکوہ اور جواب شکوہ کا تعارف اور اس کا پس منظر دانیال کو بتایا اور اس کے بعد میں نے اس نظم کی پڑھت کی اور اس کے کچھ حصے دانیال سے بھی پڑھوائے یہ اور بات ہے کی جس انداز میں اس نے اقبال کے عظیم الشان اشعار پڑھے وہ میری طبیعت پر گراں تو گزرے مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس کے سیکھنے کے اس عمل کو برداشت کروں۔ اب اس کی گفتگو میں سر راہ بھی جب کبھی کلیات اقبال کا تذکرہ آتا ہے تو مجھے یہ سن کے بہت اچھا لگتا ہے۔ اب یہ اس کے شعور کا اور لاشعور کا حصہ بن رہا ہے۔املا کے لیے بھی ہم حضرت علامہ اقبال کے اشعار منتخب کرتے ہیں یہ دراصل لکھائی درست کرنے کی ایک مشق ہے ،خوش خطی کی منزل ابھی دور ہے۔ اس دوران بار بار شعر خوب بہترین انداز میں پڑھا جاتا ہے اور طالب علم سے پڑھوایا جاتا ہے ،اس بلند خوانی میں بھی صاحبزادے شعر کا جو حشر کرتے ہیں اور میں جس طرح بار بارتصحیح کرتی ہوں یہ میرے صبر کا امتحان ہے۔ میری جانچ اور پرکھ کے مطابق دانیال کو شعر و شاعری سے کوئی شغف نہیں ہے۔ہاں نٹر میں پڑھنے لکھنے دونوں سے دلچسپی ہے۔ہیری پوٹر سیریز کے سات ناول پڑھ چکا ہے۔ خود بھی انگریزی لکھتا ہے۔دانیال کو بچپن سے ہی غالب، فیض اور اقبال کے اشعار سنایا کرتی کہ شعر سننا بھی ایک تہذیبی سرگرمی ہے اور اس سے آپ الفاظ کا اتار چڑھاؤ سمجھتے ہیں اور الفاظ کے آہنگ سے شناسائی ہوتی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ بچے شاید کچھ سمجھ نہیں رہے یا یہ مواد ان کی عمر کے مطابق نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہوتا بچوں کے اندر چیزیں جذب ہوتی رہتی ہیں۔اور لا شعور میں پڑے ہوئے صندوق میں وہ جمع ہوتی رہتی ہیں پھر وقت پر وہی معلومات آسانی سے ڈی کوڈ ہو جاتی ہیں۔ اردو نثر کے لیے بھی ہم اردو کے نامور ادیبوں اور لکھاریوں کی کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ ان کے ناموں کے ساتھ بھی ایک تعارف ہو جائے۔میں اپنا اور دانیال کے تعلیمی دور کا موازنہ کروں تو مجھے یاد آتا ہے کہ ہمارے سکولوں میں بزم ادب ہوتی تھی جس میں تقریری مقابلے ہوتے تھے ،نظم خوانی کے مقابلے ہوتے تھے اقبال کی نظمیں تحت اللفظ میں پڑھی اور گائی جاتیں۔بچپن میں نماز اور قرآن کے بعد ہم نے اقبال کا اردو کلام بہت پڑھا۔ ہمارے گھر کا جو تہذیبی اور تربیتی سلسلہ تھا اقبال کی شاعری اس کا ایک حصہ تھی۔ بانگ درا ایک ایسی کتاب تھی جو ہمارے اسکول کے بستوں کے ساتھ پڑی رہتی تھی جب چاہتے اس کو اٹھاتے اس کی نظموں اور شعروں کو بآواز بلند دہراتے۔بہرحال وہ ایک اور ہی ماحول تھا ۔اور اب ہمیں مشکل چیلنج درپیش ہیں۔ سب سے بڑا چیلنج ایک تو ہمارا تعلیمی نظام ہے اور دوسرا بچوں اور بڑوں کے دلچسپی کا مرکز اب کتاب نہیں سکرین ہے۔انہی چیلنجز کے ساتھ ہمیں اپنے بچوں کو اپنے تہذیبی اور ادبی ورثے کے ساتھ جوڑنا ہے۔ بطور والدین آپ بھی آج ہی سے یہ کوشش شروع کردیں۔