آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال 22فروری کو اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا، یہ وہ دور تھا جب روس یوکرین جنگ کا آغاز ہونے والا تھا، پورا مغرب روس کی مخالفت کر چکا تھا۔ اُس سے تیل و گیس سمیت کسی قسم کا لین دین بھی بند کر چکا تھا۔ عین اسی وقت عمران خان روس گئے اور عالمی تنازع کا شکار ہوگئے۔ تنازع بننا تو نہیں چاہیے تھا کیوں کہ یہ دورہ 2ماہ پہلے سے طے تھا لیکن جب عمران خان روس پہنچے تو عین اُس وقت جنگ کا سائرن بج گیا اور خان صاحب اس کی لپیٹ میں آگئے۔ مغربی ممالک کے میڈیا نے تبصروں کی بھرمار کر دی کہ روس یوکرین جنگ میں پاکستان روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ خیر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، لہٰذاخان صاحب ہوا بازی، ٹرانسپورٹ ، کسٹمز اور پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے معاہدے کر کے ملک واپس لوٹ آئے۔ جبکہ اُس کے چند ہفتوں بعد ہی خان صاحب کی حکومت ختم کر دی گئی اور خان صاحب نے اس کا سیدھا الزام امریکا پر لگایا کہ اُنہیں روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی سزا دی گئی ہے۔ اور اب جب کہ موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے اُسی معاہدے کے تحت جس پر دونوں ممالک نے گزشتہ اپریل میں باقاعدہ دستخط کیے تھے ، روس سے خام تیل منگوالیا ہے۔تو تمام حلقے پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ نہ جانے ایسا کیوں ہے؟ مگر یہ 45ہزار میٹرک ٹن خام تیل سے لدا ہوا جہاز 11جون کو کراچی کی بندرگاہ پہ پہنچا جسے پاکستان کی آئل ریفائنریز میں صاف کیا جائے گااور اس معاہدے کے تحت روس پاکستان کو ابتدائی طور پر ایک لاکھ ٹن خام تیل سپلائی کرے گا۔ اگر پاکستان کی آئل ریفائنریز میں اس خام تیل کو صاف کرنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو سرکاری حلقوں کے مطابق روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل کی مقدار ایک لاکھ بیرل روزانہ ہو سکتی ہے۔جبکہ اچھی بات یہ ہے کہ اس تیل کی ادائیگی ڈالر کے بجائے چینی یوآن میں کی گئی ہے ۔ مگر اس میں خان صاحب کی کسی کاوش کا کوئی نام نہیں ہے، بلکہ اُن پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے سی پیک جیسے معاہدوں کو بریک لگایا۔ خیر یہ تو ہم لوگوں کا وطیرہ ہے کہ یہاں کی یہ روایت ہی نہیں رہی کہ ہم سابقہ حکومت کے معاہدوں کو آگے لے کر چلیں یا یہ کہیں کہ سابقہ حکومت نے فلاں اقدام اچھا کیا تھا۔ بہرحال یہ ایک تاریخی پیش رفت ہے ، اس کے آفٹر شاکس کیا ہو سکتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ معاہدہ ایسے دو ملکوں کے درمیان طے پایا ہے جن کے تعلقات گزشتہ 75سال سے زیادہ تر کشیدہ رہے ہیں۔لہٰذابظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے اہم پیش رفت ہے کیوں کہ پاکستان اس کی ادائیگی کسی ایسے ملک کی کرنسی میں کر سکتا ہے جس کا دونوں ملکوں کے دوست کے طور پر شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک آسان راستہ ہے کیونکہ ملک میں ڈالر کی شدید قلت ہے اور پاکستان کی کرنسی کی قدر میں اتنا اتار چڑھائو دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کوئی بھی ملک اس میں لین دین پر راضی نہیں۔ خیر یہ کام تو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، ہم نے روس کے ساتھ ہمیشہ دشمنی رکھی۔ یعنی کل کے سوویت یونین اور آج کے روس اور پاکستان کے مابین تعلقات ہمیشہ سے نشیب وفراز کا شکار رہے۔ مورخین کے خیال میں سوویت یونین کی کمیونسٹ قیادت 1947ء میں متحدہ ہندوستان خاص کر پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے ناخوش تھی۔ شاید اسی لئے جوزف اسٹالن نے آزادی کی مبارکباد دینا گوارا نہ کیا۔ مگر 1949ء میںبھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی امریکہ یاترا اور دولت مشترکہ میں بھارتی شمولیت کے تناظر میں سوویت یونین نے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔وہ اس پر رضامند بھی تھے لیکن سرد جنگ کے عروج کے دور میں پھر دوسرے فریق امریکہ نے انہیں دعوت دے ڈالی اور وہ روس کا دورہ منسوخ کر کے امریکہ یاترا پر روانہ ہو گئے تھے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں یہ فیصلہ کن موڑ تھا۔پھر 1954-55میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا توسوویت یونین مزید ناخوش ہوگیا۔ پاکستان کیمونسٹ پارٹی کی طرف سے معاہدوں کے خلاف مشرقی پاکستان میں چند مظاہرے بھی ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین نے مشرقی پاکستان کی کیمونسٹ پارٹی کے ذریعے 1956ء کی بنگالی زبان تحریک کی مبینہ خفیہ سرپرستی بھی کی۔وزیر اعظم حسین شہید سہروردی نے پاک سوویت تعلقات بحال کرنے کا آغاز کیا۔سوویت فلموں کی پاکستان میں نمائش ہوئی۔ سوویت ثقافتی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستانی وفد سوویت صنعتی وزرعی ترقی کے مطالعہ کیلئے ماسکو گیا۔ 1956ء میں سوویت وزیراعظم نیکولائی بلگائنن نے پاکستانی حکومت کو تکنیکی و سائنسی امداد اور ایٹمی تعاون کے پرامن استعمال میں تعاون کی پیشکش کی۔ مگر ہوا یوں کہ جولائی 1957ء میں امریکی صدر آئزن ہاور نے وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کی حکومت سے پشاور کے قریب خفیہ انٹیلی جنس سینٹر کے قیام کی سہولت حاصل کر لی۔ یکم مئی 1960ء کوامریکی سی آئی اے کے جاسوس طیارے نے پشاور ایئر بیس سے پرواز کی۔ سوویت ایئر ڈیفنس نے جاسوس طیارہ تباہ کر کے پائلٹ فرانسس گیری پاورزکو گرفتار کر لیا اورطیارے کی باقیات سے سوویت ائیربیسز اور ملٹری انسٹالیشنز کی تصاویر برآمد کر لیں۔اسی روز سوویت وزیراعظم نکیتا سرگیووچ خرو شیف نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگانے اور پاکستان کو آگ سے نہ کھیلنے کی دھمکی دی۔پھر 1971میں روس نے انڈیا کا بھرپور ساتھ دیا، ہم نے افغان روس جنگ میں امریکی ایما پر افغانسان کا ساتھ دیا اور روس کا حساب برابر کر دیا۔ بہرکیف عمران خان بھی یہی کام کرنے گیا تھا، جو شہباز شریف حکومت نے کیا ہے۔ اس لیے جس کا کریڈٹ بنتا ہے، اُسے ضرور دینا چاہیے۔ لیکن ہمیں نہ جانے یہ مسئلہ کیوں ہے کہ ہم نے ہر وقت اپوزیشن پر تنقید ہی کرنا ہوتی ہے۔ یہاں آنے والی ہر حکومت سابق حکومت کے تمام پراجیکٹس بند کردیتی ہے، اُن پر نکتہ چینی کرتی ہے، اور سب سے اہم یہ کہ انہی پر نیب کیسز بناتی ہے۔ اب اگر اگلی حکومت شہباز مخالف بنی تو آپ دیکھ لیجئے گا کہ یہی روسی تیل شہباز حکومت کے لیے پھانسی کا پھندا ثابت ہوگا۔ مطلب! ہمارے ہاں لانگ ٹرم پالیسی نہیں ہے۔ مثلاََزرداری نے اپنے دور میں جاتے جاتے ایران پاکستان گیس پائپ لائن بچھا دی تھی، مگر اگلی حکومت نے اس پر عمل درآمد ہی نہیں کیا اور بدلے میں ایران نے پاکستان پر پنلٹی کے طور پر کئی ارب روپے ہرجانے کی دھمکی دی۔ اب ہم ایران سے بلیک میں تیل خرید رہے ہیں۔ خیریہ الگ بحث ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر سعودی عرب اور ایران قریب آرہے ہیں تو ہمیں بھی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا اس وقت بھی آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر دبائو رکھنا چاہتا ہے، لہٰذاپاکستان کو ادھر اُدھر ہاتھ پائوں مارنے کا حق ہے لیکن اس بھرپور حکمت عملی کے ساتھ! کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بقول شاعر نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے