خبر ہے کہ امریکی سینٹ نے ہم جنس پرستی کے تصور کو قانونی شکل دیتے ہوئے ’ریسپیکٹ فار میرج ایکٹ‘ پاس کرلیا ہے۔امریکہ اور مغرب میں ہم جنس پرستی کا بخار یوں تو کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ خصوصاًََامریکی صدر باراک حسین اْوباما کے دورِ صدارت میں یہ لہر اپنے عروج پر دیکھی گئی۔ صاف ظاہر ہے اِس بے تکی منطق کو خود مغربی ممالک کی بڑی آبادی نے تنقید کیا نشانہ بنایا۔جبکہ مسلم ممالک سے علماء اور باقی اہلِ حل و عقد نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب انسان بے لباس پیدا ہوا تو وہ بے شعور تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اْسے شعور عطاء کیا اْس نے لباس زیب تن کیا اور ایک باشعور زندگی گزارنے لگا۔ اِس دلیل میں بلاشبہ وزن تھا جسے خود مغربی ممالک نے بھی اپنایا اوریہی وجہ تھی کہ اوباما دورِ حکومت میں لبرل کے آزاد خیالات کے بخار میں تھوڑ ی کمی دیکھنے کو آئی۔ اگرچہ اْس دور میں زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے امریکی لبرل کے نظریے کوحدفِ تنقید بناتے ہوئے ایک نیا انداز اپناکر مسترد کیا۔ انہوں نے ایک بیان جاری کیا کہ ’ہم جنس پرستی‘ اگر فطرت کے مطابق ہے تو وہ دنیا کی پہلی ہم جنس پرستی کی شادی کو سرانجام دینے کے لئے بطور دولہا امریکی صدر کو اپنا رشتہ بھیجتے ہیں اور اْنہیں اپنی زوجیت میں لانا چاہتے ہیں۔اکثرا وقات یہ دیکھا گیا کہ ہے اہلِ مغرب آئے روز اِس طرح کی خرافات میں اْلجھے رہتے ہیں جسے کبھی وہ آزادیِ اظہار کا نام دیتے ہیں، کبھی من پسندانداز سے زندگی گزارنے کا عمل قرار دیتے ہیں، کبھی فطرت کے قوانین اور اصول و ضوابط سے ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل ِ مغرب چاہتے کیا ہیں؟ کیا اہل ِ مغرب میں سبھی افراد ایسے ہیں اور ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں؟ کیا اہل ِ مغرب کے حکمران، اشرافیہ اور عوام بھی ایک ہی طرح کی سوچ رکھتے ہیں؟ اگر مغربی معاشرے کا عمیق جائزہ لیا جائے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ صرف امریکہ جیسے ملک میں دو طرح کے نظامِ حکومت کام کرتے ہیں۔ امریکہ اور اہل ِ یورپ میں ’قانون کی بالادستی، انسانی حقوق، آزادی ِاظہار‘جیسے من بھاونے نعرے لگانے کے لئے عوام کے منتخب نمائندے حکمرانی کرتے ہیں جو دنیا بھر میں امریکہ کا سافٹ امیج رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انِ حکمرانوں کو سادہ طرزِ زندگی، کفایت شعاری، اصول پسندی اور حب الوطنی جیسی امثال کے ذریعے دنیا کا مثالی لیڈرز قراردینے کے لئے بین الاقوامی مغربی میڈیا ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے۔ عالمی منظرنامہ پر مغربی حکمرانوں کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ حقیقت کا عکس ہمیں جاہن پرکنز کی کتاب ’’اکنامک ہٹ مین کے انکشافات‘یا پھر موزوں الفاظ میں ’اقتصادی غارت گر‘ میں نظر آتا ہے۔ پرکنز کے مطابق امریکہ میں اصل حکمرانی بڑی بڑی کارپوریشنز کی ہوتی ہے جو اپنے کاروبار اور مفادات کی روشنی میں اپنے ملازمین کو آگے لاتی ہیں اور مغربی میڈیا کے ذریعے اْنہیں شائستہ مزاج، انسان دوست اور سلجھاہوا لیڈر بناکر پیش کیا جاتا ہے۔پھر ایسے افراد کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور اپنے مفادات پورے کئے جاتے ہیں۔اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقیقی معنوں میں کارپوریشنز کے مالکان اور ملازمین اپنے مفادات کے پیش ِنظر امریکی حکومتی پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے امریکی اور یورپی حکمرانوں کی سوچ اشرافیہ اور عوام کی سوچ سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ امریکی اور اہل ِ مغرب کی اشرافیہ عمومی طور پر حکمرانوں کے مفادات کو قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ عوام کو محض ضروریاتِ زندگی اور سہولیات کی فراہمی سے غرض ہوتا ہے اِس لئے انہیں حکمرانوں کی سیاست اور کاروبار یا مفادات سے کوئی غرض نہیں ہوتا۔ امریکی عوام جو سوشل میڈیا کی دلدل سے دور اپنی عملی زندگی کے لطائف میں کھوئی رہتی ہے اْسے عمومی طورپر یہ غرض ہی نہیں ہوتی ہے کہ اْن کا حکمران کون ہے اور کیا کررہا ہے؟ امریکی عوام صرف اْس وقت حکمرانوں کے متعلق سوچتی ہے جب اْنہیں اپنی ضروریات ِ زندگی اور زندگی کے دیگر مزے او ر لطائف میسر نہ آرہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قانون کی پاسداری امریکی ’عوامی اْمنگوں‘ کے مطابق کی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف عوام کی حد تک ہی رہے گا۔یہ شاید کبھی نہ ہو کہ امریکی صدر جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ سے، ڈونلڈ ٹرمپ اوباما سے، اوباما جارج بش سے شادی کریں گے یا مشعل اوباما لارا بش یالارا بش ہیلری کلنٹن سے یا کسی مغربی ملک کے سربراہ کی بیوی سے شادی کے بندھن میں منسلک ہوں گی۔ امریکی اور یورپی حکمران ایسی قانون سازی اپنے عوام کو اپنی زندگیوں کو اپنے مطابق گزارنے میں سہولت فراہم کرتے ہیں تاکہ عوام اپنے من میں گم رہے اور حکمران اپنی موج میں مست۔ ہم جنس پرستی کی شادی تور درکنار اس طرح کے تصور کی بھی کسی مذہب میں گنجائش نہیں ملتی۔ یہ خالصتاََ ایک معاشرتی معاملہ ہے جو عوامی سطح پر عروج پارہا ہے جس کو دیکھتے ہوئے امریکہ میں ’ہم جنس پرستی‘ کے بارے قانون سازی کی گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل امریکہ اور یورپ میں ’بناشادی ساتھ رہنے‘ یا انگریزی زبان میں ’لوِاِن ریلیشن شپ‘ کا تصور منظر ِ عام پر آیا۔ اِ س نظریئے کی رو سے ’مرد و خاتون‘ بناشادی کے بندھن میں منسلک ہوئے ساتھ رہتے ہیں، حتی کہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اگر دونوں کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی بنے تو دونوں شادی کرلیتے ہیں وگرنہ الگ ہوجاتے ہیں۔ یہ مغربی معاشرے کی وہ قباحتیں ہیں جن کے اثرات مشرقی معاشروں تک پہنچ رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ دنیا دو معاشروں میں بٹی ہوئی ہے۔ مشرقی معاشرہ اور مغربی معاشرہ۔ دونوں معاشروں کی سوچ، طرزِ رہن سہن، عادات و اطوار اور نظامِ حیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم جنس پرستی کا تصور مغربی معاشروں میں بھلے ابتدائی مراحل میں آزادیِ حیات میں بھلا محسوس ہوتا ہوگا مگر جہاں یہ خود عیسائیت، یہودیت اور اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے وہیں یہ ایک ایسا غیر فطری عمل ہے جو نظام ِ کائنات کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسی قباحتوں سے بچنے کا واحد حل دین ِ اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں ہمیں لاجواب معاشرتی نظامِ حیات میں ملتا ہے۔ لیکن اہل ِ مغرب کو اب کون سمجھائے؟