فلسطین میں غزہ پٹی میں خواتین اور بچے نہیں مر رہے ، انسانیت مر رہی ہے۔ غزہ میں بچے نہیں سسکیاں لے رہے، دنیا بھر کے منصف سسکیاں لے رہے ہیں ۔ غزہ کے بچوں کا خون ،ان کی آہیں، ان کے آنسوؤں پوری دنیا کے مسلمانوں کو پکار رہے ہیں ان کی معصوم ننھی لاشوں پر انسانیت نوحہ کناں ہے۔ شہید بچوں کی تعداد 5000 ہزار کے قریب ہے 7000 ہزار بچے زخمی ہیں، 1100 بچے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر 500 کے قریب بچے اسرائیلی بمباری کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں۔ غزہ اس وقت بچوں کے قبرستان میں بدل گیا ہے،اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے بھی خبر دار کیا ہے کہ 11 لاکھ بچوں کی زندگیوں کو پانی کی کمی کی وجہ سے ڈی ہایئڈریشن ہونے سے سخت خطرہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں بچوں کی اموات ہمارے ضمیر پر بدنما داغ ہے۔ انہوں نے فوری جنگ بندی اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ۔ 07 اکتوبر سے اب تک ہر ہفتے میں اسرائیل 6 ہزار بم گرا رہا ہے،بربریت کا شکار ان بچوں و خواتین کی درد بھری فریاد ان کی چیخیں ان کی پکار کو کوئی کیوں نہیں سن رہا کیا ۔آج دنیا میں کوئی محمد بن قاسم نہیں جس نے ایک مظلوم قیدی خاتون کے خط پر ظالم جابر راجہ داہر کے خلاف کارروائی کرکے سندھ فتح کیا اوروہاں اسلام کا جھنڈا گاڑا۔ کاش غزہ میں بھی یہاں بھی کوئی محمد بن قاسم پہنچے اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر پھر سے اسلام کا جھنڈا گاڑے۔ اسرائیل کے مظالم کا خاتمہ کرے،آج مسجد اقصٰی کے محراب و منبر خون آلود ہیں ۔فلسطین کے ہسپتالوں و مدارس اور مساجد کے در و دیوار بھی فلسطین کے مسلمانوں کے خون کے چھنٹوں سے بھرے ہیں لیکن یہ خون رائیگاں تو نہیں جائے گا ۔غزہ کے معصوم بچے دنیا سے سوال کر رہے کہ ہمارا قصور کیا ہے ،ہماری نسل کشی اورقتل عام کا جواز کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کچھ آوازیں سنائی دی ہیں جن سے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا گیا ہے متحدہ عرب امارات کے سفیر نے کہا کہ فلسطینی بچوں کی اموات ہمارے اخلاقی ضمیر کو داغدار کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں متحدہ عرب امارات کے سفیر کی اس بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اخلاقی ذمہ داری کا احترام کرنے میں ناکام رہی ہے اور دنیا کی اکثریت کے اظہار خیال کو نظر انداز کرنے سے بین الاقوامی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ کدھر ہیں اہل مغرب جو جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کا تو بڑا پرچار کرتے ہیں لیکن انہیں غزہ کے ببچے نظر نہیں آ رہے۔کہاں ہیں انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار جو بڑے بڑے دعوے کرتے تھے، کہاں ہیں امن کے نوبل انعام یافتہ لوگ،کہاں ہیں دنیا کے تمام مذاہب کے عالم و فاضل جو انسانیت کا درس دیتے تھے آج کدھر گئی انسانیت ۔آج سب کے ضمیر مردہ کیوںہو گئے ہیں یا تمام کے تمام مصلحتوں کا شکار ہو چکے ہیں یا سب امریکہ اور اسرائیل کے آگے جھک گئے ہیں اور کلمہ حق کہنے سے گریزاں ہی نہیں بلکہ ظالم کو کھلی بربریت کھلی جارحیت جاری رکھنے کے لیے کھلی چھٹی دے رہے ہیں۔ لیکن وقت بدلے گا حالات بدلیں گے ان سب کو جواب بھی اور حساب بھی دینا پڑے گا۔ ان کے گریبان محفوظ نہیں رہیں گے آج یہ ایک ظالم جابر قابض اسرائیل کے ہاتھ نہیں روک رہے تو کل ان کے گریبانوں تک ان معصوم بچوں کے بے گناہ خواتین کے ہاتھ پہنچیں گے۔ دل رنجیدہ ہے، روح گرفتہ ہے، زبان لرزاں ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف دنیا بھر سے کوئی کارروائی نہیں ہو رہی کیا مسلمانوں کا خون اتنا سستا ہے۔ فلسطین میں تو اسرائیل ایک قابض ملک ہے۔ جبری قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کو مٹانے کے لئے اس کے مکروہ مظالم جاری ہیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو قابض کے طور پر حق دفاع حاصل نہیں،انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادجنگ بندی کو مسترد کر کے اسرائیل نے رعونت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اسرائیل کے مظالم روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جنون اور حماس کے نام پر بے گناہ نہتے معصوم بچوں کا قتل عام ایک المیہ ہے۔ اسلامی ممالک میں سے چند ایک نے غزہ میں ہونے والی خونی لڑائی پر سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا گیا ہے۔ سینٹ آف پاکستان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں دنیا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔ آج غزہ میں محصور مسلمانوں کی فریاد معصوم بچوں کی چیخ و پکار،بے گناہ خواتین جن کے جگر گوشے ننھے منے معصوم پھولوں کو شہید کیا جا رہا ہے ان کی درد بھری آہیں کوئی نہیں سننے والا،کیا سب اندھے ہیں گونگے اور بہرے ہیں اور ہاںاگر دنیا کے ناخدا گونگے اور بہرے ہیں اندھے ہیں تو رب العالمین تو سمیع و بصیر ہے ،وہ ستار ہے ،غفار ہے ۔اس کی بارگاہ میں سب سنائی دیتا ہے اس کو سب دکھائی دیتا ہے وہ بڑا منصف ہے وہ بہترین کارساز ہے۔ جلد یا بدیر ان بے گناہ شہریوں کی خواتین کی معصوم بچوں کی آواز اس کی بارگاہ میں پہنچ کر شرف قبولیت حاصل کریں گی اور پھر ظلم کی سیاہ رات اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے گی ان بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ان شا اللہ فلسطین بھی آزاد ہو گا۔