حکومت جا رہی ہے اور نون مُسکرا رہی ہے۔تم اتنا جو مسکرا رہے ہو۔کیا راز ہے جس کو چھپا رہے ہو؟جانے والے اُداس ہوتے ہیں۔فرقت سے،جُدائی سے۔خان سے پوچھا کسی نے کہ آپ اُداس کیوں ہیں؟ کہنے لگے۔کس کس کو بتائیں گے جُدائی کا سبب ہم۔بات ہو رہی ہے میاں شہباز اور ان کی حکومت کی جو پاور میں اپنا آخری اوور کھیل کر پویلین میں جا رہی ہے۔مگر کرکٹ اور حکومت میں فرق ہوتا ہے بہت سا۔کرکٹ میں میچ ختم ہو جاتا ہے اور پاور پلے کا میچ کبھی ختم نہیں ہوتا۔اپریل2022ء سے اب تک چھوٹے میاں صاحب کی حکومت جاری اور ساری ہے۔ایسے میں مہنگائی کا ماتم جاری ہے۔ایک سیاسی حکومت۔اتنے غیر سیاسی فیصلے؟غیر مقبول فیصلے۔کیا مسلم لیگ ن نے سیاسی دنگل میں حصہ نہیں لینا؟اگر ایسا ہی ہے تو پھر اضطراب اور بے چینی کیوں نہیں؟اطمینان کیسا؟زائچہ بنانے والے پنڈتوں کے مطابق۔عمران اپنے پائوں پر صرف ایک نہیں کئی کلہاڑیاں مار چکے ہیں۔ پاور کوAbsolutelyانجوائے کر رہے تھے تو پنڈت انہیں سمجھارہے تھے۔اتنا نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت۔دامن کو ذرا دیکھ،ذرا بندِقبا دیکھ۔انہیں قرب سے جاننے والے ایک دانش مند پنڈت کہنے لگے،عمران مردم شناس نہیں ہے۔تضادات ہر انسان کی ذات کا حصہ ہیں۔اگر انسان پبلک پراپرٹی ہو تو خوبیاں اور خامیاں سرِ بازار ناچتی ہیں۔ غیر دانشمندانہ مشورے،عجب کرپشن کی غضب کہانیاں،وسیم اکرم پلس اور کسی کا فیضانِ نظر۔ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر،اس پر تم لے آئے سائبان شیشے کا۔تاریخ اور مؤرخ خان کو کیسے لکھے گا؟یہ کہانی پھر سہی۔آج صرف نون کی بات۔ کسی دانا کا کہنا ہے کہ کسی کی خامیاں آپ کی خوبیاں نہیں بن سکتیں۔شہبازحکومت خاصی باخبر ہے۔اسے علم ہے کہ عوام کا موڈ کیا ہے۔تمام چھوٹے بڑے سیاسی شیر پریشان ہیں۔وہ کبھی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے ناراض ووٹر کی طرف۔حکومت کس طرف دیکھتی ہے؟آئی ایم ایف،مولانا،آصف زرداری،میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف۔عوام کے چہروں پر لکھا ہے۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔حادثہ ایکدم نہیں ہوتا۔اس مایوس کن صورتحال تک پہنچنے میں وقت لگا۔نکلنے میں بھی وقت لگے گا۔ملٹی ملین سوال ہے تو پھر نون اور عوام کی دوستی کب اور کیسے ہو گی؟یا الیکشن کب اور کیسے ہوں گے؟عام آدمی نہیں جانتا،نہ ہی جاننا چاہتا ہے کہ ڈیفالٹ کیوں ہو رہا تھا،یہ کیا ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچے؟اسے غرض ہے کہ اس کے جسم اور روح کا رشتہ کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔اس کا کوئی بھی حل فوری طور پر کسی بھی حکومت کے پاس نہیں۔ابھی عرض کیا ہے انسان دوسروں کی خامیوں پر نہیں اپنی خوبیوں پر زندگی بسر کرتا ہے۔مگر حکومتیں ایسا نہیں کرتیں۔پہلے عمران سیاسی مخالفوں کی طرف انگلی اُٹھا کر اپنی تعریفیں کرتا تھا۔اب والے اس کا ذکر کر کے،اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہیں۔ مگر اپریل2022ء سے اب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔مشکل فیصلے جو ضروری تھے وہ آپ کر چُکے۔آپ کی ایک جانب آئی ایم ایف تھا،دوسری جانب مقتدر حلقے اور تیسری جانب زرداری اینڈ مولانا۔آپ کا حلقہ مشاورت لند ن میں ہے۔اتنی محدودات میں کھیلتے ہوئے اپنی اننگ کھیل جانا مشکل ہے۔مگر اب جبکہ الیکشن،الیکشن کا شور ہے،مسلم لیگ نون گرائونڈ پر کیا کرے گی؟پنجاب مسلم لیگ نون کا قلعہ تھا۔اب شاید ایسا نہیں ۔اصولاً تو مسلم لیگ نون کی نیند اور بھوک اُڑ جانی چاہیے۔اس کے اکثر ٹکٹ ہولڈرز؟ایک رنگ آ رہا ہے ۔۔ایک رنگ جا رہا ہے۔ایک نون والا لیڈرکہنے لگا"ہُن تے پکے ووٹڑ وی اکھ نہیں ملاندے"۔چلیے مان لیا کہ مولانا کی انتخابی سائنسKPKکی سیاست اور عارف علوی کی جگہ لینا ہے۔آصف زرداری سندھ میں استحکام اور دوام پا چکے ہیں۔ہمیشہ لکھتا ہوں،پنجاب کا مطلب صرف پنجاب نہیں۔اس سے مراد اسلام آباد بھی ہے اور پورا پاکستان بھی۔اساتذہ کہتے تھے،اسلام آبادجانے والا ہر راستہ واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے مگر اب؟پ سے پنجاب۔۔اورپ ہی سے پنڈی ہے۔پنجاب میں نوجوان نسل کو عمران نے اٹریکٹ کیا مگر عمران کے اپنے مینو فیکچرنگ مسائل۔پنجاب نون کا گڑھ ہے اس لیے2018ء میں کافی فیکٹرز اور سیکٹرز اس کے مخالف ہونے کے باوجود اس نے الیکشن میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کر لی۔آج2023ء ہے۔وہ سارے فیکٹرز اور سیکٹرز اپنے رنگ ،ڈھنگ اور انگ بدل چکے۔مگر ساتھ میں پچھلے سوا سال کی گورننس کا بوجھ بھی ہے۔حکومت میں ہونا،ثواب بھی ہے اور عذاب بھی۔فیصلہ حکومت کا ہو یا کسی اور کا۔۔۔گلے حکومت ہی کے پڑتا ہے۔مسلم لیگ نون کے اندر بعض معاملات میںبڑے میاں صاحب اور چھوٹے میاں صاحب کے درمیان حکمتِ عملی پر اختلا ف بھی ہوتا ہے۔ اپریل2022ئمیاں شہباز حکومت میں رہنے کے حق میں تھے اور بڑے میاں صاحب حکومت چھوڑنے کے حق میں۔مگر اب؟جہاں یہ جماعت کھڑی ہے، اتنی مطمئن کیوں ہے؟کیوں مُسکرا رہی ہے۔جب پنڈتوں سے پوچھا تو کہنے لگے۔2018ء سے2023ء تک صورتحال 190ڈگری بدل چکی ہے۔عوام کی تو نہیں مگر اقتدار کی غلام گردشوں کے اندر کی صورتحال۔سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے ۔2018ء کا ایکشن ری پلے ہے،بس کردار بدل گئے ہیں۔پنجاب میںنون کے علاوہ مسلم لیگ(ق) اور استحکامِ پاکستا ن پارٹی بھی ہیں۔ان کے پاس امیدوار ہیں،ووٹ بینک نہیں۔پی ٹی آئی کے پاس ووٹ بینک ہے امیدوار نہیں۔مسلم لیگ(ق) کوچوہدری سرور زیادہ راس نہیں آئے۔اس لیے چوہدری شجاعت ،سالک اور وجاہت۔۔۔کوشش کر رہے ہیں کہ پرویز الٰہی کو جیل سے باہر لا کر "طاقتوروں "سے کچھ معاملہ کیا جا سکے۔مگر مونس الٰہی کو غلط فیصلے کرنے کی عادت ہے اس لیے وہ پرویز الٰہی کو روک کر بیٹھے ہیں۔ایسے میں یس الیکشن یا نو الیکشن۔۔مسلم لیگ نون محفوظ رہے گی۔ 9 یا 10اگست کو یہ حکومت سے باہر آ جائے گی اقتدار سے نہیں۔شاید اسی لیے یہ مطمئن بھی ہے اور مسکرا بھی رہی ہے۔سیاست میں اپنے اپنے کارڈ ترتیب دینا،جیتنا اور ہارنا چلتا رہتا ہے۔مگر باب العلم کا ایک جملہ یاد رہے"میں نے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خُدا کو پہچانا"۔